لڑائی بڑھ گئی
کہا جا رہا تھا کہ لندن بیٹھک میں کشیدہ سیاسی صورتحال کا کوئی پر امن حل نکال لیا جائے گا ۔میاں نواز شریف اور مریم نواز مسائل کا ملبہ اٹھانے کے حق میں نہیں تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ حکومت کی بجائے پارٹی بچائی جائے۔ الیکشن کروا کر پارٹی مینڈیٹ کو محفوظ کیا جائے۔ ان کا خیال تھا کہ ملک کے حالات بہت خراب ہیں ،معاشی معاملات فوری نہیں سنبھلنے والے۔ مہنگائی بے روزگاری لوڈشیڈنگ بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ناگزیر ہے ۔جس کا سارا بوجھ حکومت پر پڑے گا۔ ریلیف نہ ملنے کی صورت میں مسلم لیگ عوامی سطح پر ڈمیج ہو گی اس لیے بہتر ہے کہ انتخابات کا فیصلہ کر لیا جائے اور تمام غیر مقبول فیصلے نگران حکومت پر چھوڑ دیے جائیں لیکن باپ بیٹے کی حکومت اکڑ گئی اور کہا کہ ہم وعدے وعید کر کے آئے ہیں۔ اگر ہم انحراف کریں گے تو مستقبل میں بھی ہم پر کوئی اعتبار نہیں کرے گا۔ اوپر سے آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کو فون کر کے کہا کہ آپ لوگوں کی گارنٹی میں نے دی ہے۔ آپ ہماری مرضی کے بغیر کیسے الیکشن کروا سکتے ہیں۔ تیسرا یہ کہ بعض بین الاقوامی قوتوں نے بھی یقین دہانی کروائی کہ آپ فکر نہ کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔وزیر خارجہ بلاول بھٹو اور اہم شخصیات امریکہ سے آلائنمنٹ کرنے جا رہے ہیں ۔ان سارے معاملات کے بعد اتحادی جماعتوں کی حکومت نے سٹینڈ لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اب سیدھی سی بات ہے ملک میں دما دم مست قلندر ہونے جا رہا ہے ۔جس کی ابتدا سیالکوٹ سے شروع ہو چکی ہے ۔سیالکوٹ میں حکومت کے جلسہ کو روکنے کا ٹیسٹ کیا جا رہا ہے۔ ٹیسٹر لگا کر چیک کیا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کس حد تک مزاحمت کرتی ہے حکومتی طاقت اور عوامی طاقت کی ابتدائی ہتھ جوڑی ہو چکی۔ حکومتی طاقت نے تحریک انصاف کی مقامی لیڈر شپ کو گرفتار کر لیا ہے ان کے سٹیج کو توڑ دیا گیا ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان سیالکوٹ میں جلسہ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں اور لوگ لڑائی جھگڑے کے ماحول میں کس حد تک باہر نکلتے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ عمران خان پوری طاقت کے ساتھ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر دباو بڑھا رہے ہیں کہ فوری طورپر الیکشن کا اعلان کیا جائے۔ دن بدن بڑھتی ہوئی عوامی پذیرائی اس کے حوصلے بلند کر رہی ہے تمام تر حالات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اب درمیانی راستہ کے امکانات کم اور فیصلہ کن جنگ کے زیادہ چانسز ہیں۔ شدید گرمی کے موسم میں عمران خان قوم کا امتحان لینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ دوسری طرف حکومت بھی تیاریوں میں ہے۔ اطلاعات ہیں کہ تحریک انصاف کے متحرک لوگوں کی فہرستیں تیار ہو چکیں اور اب بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع ہونے والی ہیں۔ عمران خان کی نئی سیاست اس امتحان سے کیسے نکلتی ہے اس کا کسی کو اندازہ نہیں ۔کیونکہ حکومت روائیتی طریقے آزمانے جا رہی ہے لیکن اگر عوام کی بہت بڑی تعداد گرفتاریاں دینے کے لیے تیار ہو جاتی ہے اور گرفتاریوں کے بعد بھی لوگ سڑکوں پر موجود ہوں گے تو پھر کیا ہو گا۔ موجودہ حکومت کے اندر سے بھی یہ باتیں آرہی ہیں کہ ہمیں کہا گیا تھا کہ آپ نے حکومت سنبھالنی ہے۔ عمران خان کو ہم خود سنبھال لیں گے۔ یہ بات انتشار کی جڑ بن سکتی ہے۔ تمام سیاسی قوتیں کسی نہ کسی طرح اسٹیبلشمنٹ کو لپیٹ رہی ہیں۔ قبل ازیں ایسا ہوتا تھا کہ ہر اچھے برے کام کی ذمہ داری حکومت اپنے سر لیتی تھی آج سیاستدان ہر برے کام کو ان کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں اور ہر اچھے کام کا کریڈٹ خود لے لیتے ہیں اور وہ تو اپنی بات بھی کھل کر نہیں بتا پاتے۔ اب کئی دنوں سے تسلسل کے ساتھ کہا جا رہا ہے کہ انھیں سیاست میں نہ گھسیٹا جائے لیکن اپوزیشن اور حکومت اتنے ہی زور سے انھیں زیر بحث لا رہے ہیں۔ بڑھتے ہوئے انتشار اور سیاستدانوں کی غیر ذمہ داری انھیں بار بار ٹیک اوور کی دعوت دے رہی ہے ۔خدارا ہوش مندی سے کام لیا جائے ۔سیاسی اختلافات اور سیاسی بحران کو سیاسی طریقوں سے حل کیا جائے۔ لیکن لگتا ہے کہ سیاستدان اگلا گھر دیکھنے کا تہیہ کر چکے ہیں۔عمران خان جوں جوں محسوس کر رہے ہیں کہ ان کی بات نہیں مانی جا رہی ۔وہ سخت ہوتے جا رہے ہیں پہلے وہ جو باتیں اشاروں کنایوں میں کرتے تھے اب واشگاف الفاظ میں کر رہے ہیں اور اب تو دھمکیوں پر بھی اتر آئے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں اداروں کا کسی اور طرح کا امتحان ہے جبکہ سیاستدانوں کا کسی اور طرح کا امتحان ہے ۔ہر کوئی ایک دوسرے کو زیر کرنے کے درپے ہے۔ اللہ نہ کرے اس چومکھی لڑائی میں پاکستان کا کوئی نقصان ہو جائے۔ حالات اس حد تک خراب ہو چکے ہیں کہ پاکستانی سیاست بین الاقوامی طاقتوں کو بھی متاثر کر رہی ہے اور دشمنوں کو بھی مداخلت کی دعوت بھی دے رہی ہے ۔سنگین معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ معاشرتی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ لگتا ہے قدرت بھی ہماری کرتوتوں کی وجہ سے ہم سے ناراض ہے، شدید گرمی کا موسم ایک نئے معاشرتی بحران کو جنم دے رہا ہے خشک سالی سے انسانوں اور جانوروں کی حیات خطرے میں ہے ۔نئی بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے۔ پانی کے شدید بحران کی وجہ سے غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔کسان پانی کی کمی کی وجہ سے نئی فصلیں کاشت نہیں کر پا رہے۔ لوگوں کے لیے پینے کا پانی بھی نایاب ہو رہا ہے۔ ہم سیاسی رسہ کشی میں مصروف ہیں ان خطرات سے نمٹنے کیلئے نہ توہماری کوئی منصوبہ بندی ہے اور نہ ہی اس پر کوئی توجہ دے رہا ہے ۔خدارا سیاست سے زیادہ انسانی زندگیوں کو بچانے کا سوچیں۔