’’لاہور میں کتابوں کا میلا ؔ، مَیں گھراکیلا!‘‘

معزز قارئین ! ہندی اور اُردو زبان میں ’’ میلا‘‘ کے معنی ہیں ’’ انبو، اژدھام، ہجوم ‘‘ ۔ ہُوا یوں کہ ’’12 مئی کو’’لاہور انٹرنیشنل بک فیئر‘‘ کے زیر اہتمام ایکسپو سنٹر میں 4 روزہ 35 واں بین الاقوامی ’’ کتاب میلا ‘‘ طے پایا تھا۔ مجھے دو دِن پہلے عزیز گرامی ، چیئرمین پیمرا پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ نے بتایا تھا کہ ’’ مجھے میلے کا افتتاح کرنا ہے اور مَیں چاہتا ہُوں کہ ’’آپ میرے ساتھ میلے میں چلیں !‘‘۔ مَیں نے کہا ٹھیک ہے ۔ پھر کیا ہُوا؟۔ خرابی ٔ صحت کے باعث مَیں نے ایک دِن پہلے پروفیسر صاحب سے ٹیلی فون پر معذرت کر لی ۔ ایک بہت پرانی ضرب اُلمِثل ہے کہ …
’’ میلا ، میلا کر رہی !
میلے کے دِن گھر رہی!
’’ کتاب ‘‘ کے معنی ہیں ’’ نوشتہ ، نامہ، رسالہ، لکھی ہُوئی چیز ، حکم ‘‘۔ ہم مسلمان قرآن پاک کو ’’کتاب اللہ ‘‘ یا’’ کتاب الٰہی‘‘ کہتے ہیں اور ہم بچپن ہی سے بچوں کو اِس کتاب مقدس کی زیارت کراتے ہیں اور پھر اُنہیں پڑھاتے اور ترجمہ سِکھاتے ہیں ۔ 1947ء میں ہجرت کے بعد ہمارا خاندان میرے والد صاحب تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان کی سربراہی میں پاک پنجاب کے شہر ’’ سرگودھا‘‘ میں آباد ہُوا تھا، جہاں میرے والد صاحب کی کتابوں کی دُکان تھی، پھر مجھے مختلف علوم و فنون کی کتابیں بھی دیکھنے اور پڑھنے کا موقع ملا۔ دُکان پر میرے والد صاحب کے دو بزرگ دوستوں چودھری نذیرحسین صاحب اور بابا قاسم منیار صاحب کا تقریباً روز ہی آنا جانا تھا۔مَیں نویں جماعت کا طالبعلم تھا جب مجھے بابا چودھری نذیر حسین صاحب نے فارسی پڑھانا شروع کردِی اور بابا قاسم منیار دوپہر کے کھانے کے بعد بڑی سُریلی آواز میں ہمیں پنجاب کے صوفی شاعروں کا کلام ترنم سے سُنایا کرتے تھے ۔ میرے والد صاحب مجھے میلاد شریف کی محفلوں میں لے جاتے تھے ۔ مَیں نے 1956ء میں میٹرک پاس کِیا اور اردو زبان میں پہلی نعت لکھی جو لائل پور ( موجودہ فیصل آباد) کے روزنامہ ’’ ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘ میں شائع ہُوئی۔ 1960ء میں مَیں نے مسلک صحافت اختیار کِیا ، جب مَیں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں بی اے فائنل کا طالبعلم تھا ۔ سرگودھا میں کئی قومی اخبارات کا نامہ نگار رہا اور مقامی ہفتہ وار اخباروں کا ایڈیٹر بھی۔
’’ مادرِ ملّت سے ملاقات!‘‘
فروری 1964ء میں مجھے جنابِ مجید نظامی نے سرگودھا میں ’’ نوائے وقت ‘‘ کا نامہ نگار مقرر کِیا تھا ۔ صدارتی انتخاب سے پہلے میری اپنے صحافی دوست تاج اُلدّین حقیقت مرحوم کے ساتھ لاہور میں مادرملت سے ملاقات ہُوئی تھی ۔ وہیں تحریکِ پاکستان کے دو (گولڈ میڈلسٹ)کارکنان ،لاہور کے مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری (چیئرمین پیمرا مرزا محمد سلیم بیگ کے والد صاحب ) اور پاک پتن شریف کے چودھری محمد اکرم طورؔ (پنجابی ، اردو کے نامور شاعر اور ’’ نوائے وقت‘‘ کے سینئر ادارتی رُکن سعید آسیؔ کے والد صاحب ) سے ملاقات ہُوئی اور دوستی ہوگئی مرزا صاحب کا امرتسر میں آدھے سے زیادہ خاندان سِکھوں سے لڑتا ہُوا شہید ہوگیا تھا اور چودھری محمد اکرم طور ؔ نے قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی آباد کاری میں اہم کردار ادا کِیا تھا ۔
معزز قارئین ! مَیں نے اپنے کالم میں کئی بار لکھا ہے کہ ’’ اگر پروفیسر محمد سلیم بیگ انفارمیشن گروپ کے سینئر آفیسر نہ ہوتے اور سعید آسی ؔ نامور شاعر ، ادیب اور صحافی نہ ہوتے تو میری اِن دونوں حضرات سے پختہ دوستی کیسے ہو جاتی؟۔ مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری بابا بلھّے شاہ کے بہت "FAN" تھے اور چودھری محمد اکرم طورؔ بابا فرید گنج شکرگنج کے ۔
’’کالے لِکھ نہ لیکھ !‘‘
چودھری محمد اکرم طورؔپاکستان کے حکمرانوںاور با اثر لوگوں کے لئے اکثر اپنے دوستوںکو بابا فرید گنج شکر کا یہ دوہا سُنایا کرتے تھے کہ …
فریداؔ! جے تُوں عقل لطیفؔ ، کالے لِکھ نہ لیکھ!
آپنے گریوان میں سِر نِیواں کر دیکھ !
یعنی’’ اے فریدؔ ! اگر تو باریک بین عقل رکھتا ہے تو’’ کالے لیکھ‘‘ ( سیاہ تحریریں اور احکامات ) نہ لکھ بلکہ لکھنے سے پہلے سر نیچا کر کے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ ‘‘۔معزز قارئین ! مرزا شجاع اُلدّین بیگ کو کتابیں پڑھنے اور دوستوں کو کتابیں تحفہ میں دینے کا شوق تھا۔ مرزا سلیم بیگ کو بھی یہی شوق ورثے میں ملا ۔ مَیں نے اُنہیں مختلف علوم کی کتابوں کا بہت بڑا ’’پڑھاکو ‘‘ پایا ۔انفارمیشن آفیسر کی حیثیت سے اُنہوں نے بے شمار افسران کوحقیقی معنوں میں اچھا پاکستانی بنانے کے لیے کردار ادا کِیا اور کتابوں سے محبت کرنے کا بھی۔ مرزا سلیم بیگ کو بھی اپنے والد صاحب کی طرح دوستوں کو کتابیں تحفہ میں دینے کی عادت ؔ ہے۔ مرزا شجاع اُلدّین بیگ کو عاشق رسولؐ علاّمہ اقبال سے بے حد عقیدت تھی۔ وہ کتاب ؔسے متعلق علامہ اقبال کے اکثر یہ شعر خاص طورپر گُنگنایا کرتے تھے کہ …
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
سرود و شعر و سیاست ، کتاب و دین و ہنر
گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ
"World Book Day"
معزز قارئین ! مختلف ملکوں میں ہر سال 23 اپریل کو"World Book Day" یعنی ’’ عالمی یوم اُلکتاب ‘‘ منایا جاتا ہے لیکن ہمارے پاکستان میں توہر دِن / رات "Book Day" اور "Book Nights" منانے کا رواج ہے۔ ہم اُردو، فارسی اور مادری زبانوں سے محبت کرنے والوں کو ’’ عاشقانِ کتاب ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ 12 مئی کی شام پروفیسر محمد سلیم بیگ میری مزاج پرسی کے لئے میرے گھر آئے تو مَیں نے اُنہیں بہت ہی پر جوش پایا۔ وہ ’’لاہور انٹرنیشنل بک فیئر ‘‘کے چیئرمین جناب سلیم ملک، وائس چیئرمین جناب کاشف زبیر اور دوسرے اہم ارکان محمد فیصل، میاں بابر حمید کے انتظام و انتصام کی تعریف کر رہے تھے ۔
’’Library/ ذخیرہ کتب!‘‘
معزز قارئین! مَیں سرکاری لائبریز / ذخیرہ کتب کی بات نہیں کر رہا ۔ مَیں نے اکثر کتابوں کے رسیا (شوقین ) خواتین و حضرات کے بہت ہی قیمتی ذخیروں کی زیارت کی ہے، پروفیسر محمد سلیم بیگ بھی اُن میں سے ایک ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ’’ اُن کی لائبریری ’’ ذخیرۂ کتب ‘‘ کی حفاظت کے لئے اُن کی اہلیہ ( راجپوت برادری کی بیٹی ،میری بھی بیٹی) بیگم طاہرہ سلیم بیگ بہت ہی ذمہ داری کا ثبوت دے رہی ہیں ۔ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے کہ ’’ میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں !‘‘ ۔