ایک چراغ سے جل اٹھے ہزاروں چراغ
دنیا کے اس قدیم ترین شہر ملتان کو سالہا سال سے ہر کوئی خواہ وہ سیاسی ہو یا انتظامی، بس قدیم ہی بنانے پر تلا ہوا تھا اور قد آور سیاسی قیادتوں کے باوجود اس شہر کے لئے مسائل ہی مسائل تھے وسائل کا تو نام و نشان نہ تھا۔ صلح جو شہریوں پر ہر آنے والے نے دھونس جمائی اور ایک بااختیار تو ایسا بھی تھا کہ شہر پر عارضی حکومت کر کے ایسے غائب ہوا جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ اس بااختیار نے تو لوگوں کے گھروں کے آ ہنی گیٹوں کے سامنے بھی دیواریں اور اونچے فٹ پاتھ بنا کر بعض گھروں میں گھر والوں کاداخلہ ہی عملاً بند کر دیا تھا کہ گیٹ منظور شدہ نہ ہے۔ یہاں حکمران آئے مگر عوام دوست نہ آئے۔ بطور اخبار نویس اس شہر پر ایسے ایسے مظالم ہوتے دیکھے کہ بیان سے باہر ہے۔ شہر میں سے گزرنے والی نہریں بند ہو گئیں تو شہر کے اطراف کی دونوں نہریں شہر کے آلودہ پانی کی وجہ سے گندے نالے میں مکمل طور پر تبدیل کر دی گئیں مگر اس شہر کی کسی سیاسی قیادت کو اس کے ضمیر نے نہ جھنجھوڑا۔ اس شہر کے لوگ کتنے مخیر ہیں، خاموشی سے کتنے فلاحی کام کرتے ہیں، اس کا تصور بھی محال ہے۔ کسی کا نام کیسے لوں کہ ہر کوئی یہی کہتا ہے۔دیکھیں جی میرا نام نہ آئے بس آپ یہ کر دیں۔ ایسے طیب لوگ کس شہر کو نصیب ہوئے ہوں گے جن کی اس شہر کی مٹی نے پرورش کی۔
ملتان میں 8 ماہ کا عرصہ گزار کر واپس لاہور ٹرانسفر ہونے والے ڈپٹی کمشنر ملتان نے پریس کلب میں ایک الوداعی تقریب میں اس شہر کے باسیوں کا جو طیب نقشہ کھینچا، اس سے بڑھ کر اس شہر اور اس کے باسیوں کو اور کیا نذرانہ عقیدت کسی ڈپٹی کمشنر اور وہ بھی عامر کریم خان جیسا ہو، کی طرف سے پیش کیا گیا ہو گا۔ پریس کلب ملتان میں منعقدہ الوداعی تقریب میں عامر کریم خان نے بتایا کہ حکومتی امداد کے بغیر محض 8 ماہ کے قلیل عرصے میں اس شہر کے مخیر اور صاحب ثروت افراد نے ایسا قابل تعریف تعاون کیا کہ بیان سے باہر ہے۔ عامر کریم خان نے فیصلہ کیا کہ شہر میں تین مقامات پر غریب، مسکین اور سفید پوش افراد کو کھانا دیا جائے اور اس پر سرکار کا کوئی خرچ بھی نہ ہو۔ سوچ بچار کی گئی کہ سال میں 52 ہفتے ہوتے ہیں لہٰذا 52 مخیر افراد ڈھونڈے جائیں جو ایک ایک ہفتہ ان تین مقامات پر مفت کھانا تقسیم کریں جس میں صبح کا ناشتہ، دوپہر اور رات کا کھانا ہو۔ رابطے شروع ہوئے تو سات افراد نے کہا کہ ہم سارا سال یہ کام کرنے کے لئے تیار ہیں اور جب ملتان کے ایک مخیر نے ڈپٹی کمشنر کی ایک دوسرے صاحب ثروت سے بات کرائی تو انہوں نے عامر کریم خان سے کہا میں آپ سے اکیلے میں بات کروں گا اور پھر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ساری کی ساری ذمہ داری لے لی اب صورتحال یوں ہے کہ شہر کے چند افراد کے تعاون سے ہر روز اس شہر میں ایک ہزار کے لگ بھگ مسافر غریب مساکین اور سفید پوش حضرات تین وقت کا مفت کھانا کھا رہے ہیں۔ کھانے کی یہ خدمت کرنے والوں اور اس کے لئے ترغیب دینے والوں کو شاید ہی علم ہو کہ انہوں نے کتنا بڑا کام کیا ہے اور اللہ کو یہ کام کتنا پسند ہے اس حوالے سے مستند روایات کچھ اس طرح سے موجود ہیں۔
کہتے ہیں کہ فرعون نے جب خدائی کا دعویٰ کیا تو مصر کے لوگوں نے فرعون سے کہا کہ اللہ تو کھانا دیتا ہے تم بھی دو جس پر فرعون نے بھی حکم دیا کہ اہل مصر کو مفت کھانا کھلایا جائے لہٰذا شاہی خزانے سے یہ کام شروع کر دیا گیا۔ ادھر حضرت موسیٰ اللہ پاک سے ہمکلام ہوتے تو یہی شکایت کرتے کہ فرعون کا ظلم اور شرک آئے روز بڑھتا ہی جا رہا ہے اللہ پاک کے طرف سے ایک ہی جواب ملتا۔ موسیٰ ابھی انتظار کرو۔ کہا جاتا ہے کہ تب فرعون کے حکم پر اہل مصر کے لئے دس ہزار بکرے روزانہ ذبح ہوتے اور ہزاروں دیگیں پکتیں۔ چند ہی ماہ بعد فرعون کے وزیر خزانہ نے رپورٹ پیش کی کہ قومی خزانے میں تیزی سے کمی آ رہی ہے اور آپ کا لوگوں کو مفت کھلانے کا حکم چند ہی ماہ میں خزانہ خالی کر دے گا۔ فرعون نے اہل مصر کو کھلانے سے ہاتھ کھینچنا شروع کردیا اور پھر وہ دن بھی آیا جب عوام کے لئے اس خدائی دعوے دار فرعون کی طرف سے کھانا کھلانے کا عمل مکمل طور پر روک دیا گیا اور صرف محل کے لوگوں کے لئے کھانا تیار ہونے لگا۔ دوسری طرف حضرت موسیٰ کی اللہ کے حضور اپیلیں جاری تھیں کہ فرعون کا شرک بڑھتا جا رہا ہے جونہی فرعون کی طرف سے عوام کے لئے کھانا بند کئے جانے کا حکم صادر ہوااللہ نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ فرعون کے انجام کا وقت آ چکا ہے اور بمطابق روایت رب کریم نے فرمایا۔ موسیٰ میں وہ در کیوں کر بند کرتا جہاں سے مخلوق کو کھانا ملتا ہو۔
یہ ہے رب کریم کا فضل اس شخص پر جو مسافروں مساکین اور غریبوں کے لئے کھانا فراہم کرتا ہے کہ مفت کھانے کھلانے پر رب کریم نے فرعون جیسے مشرک کو بھی مہلت دیئے رکھی۔ انہی سردیوں میں ملتان میں غریبوں کے لئے سرکاری سرپرستی کے بغیر محض اسی ایک شخص عامر کریم خان کی منصوبہ بندی سے لاکھوں روپے کے گرم کپڑے غریبوں میں تقسیم کئے گئے اور جب یہ کام شروع کیا گیا تو صرف ایک اللہ والا خاموشی سے 11 لاکھ روپیہ دے گیا یہاں کا مخیر چاہتا ہے کہ چاہے جو مرضی لے لیں مگر نام ظاہر نہ کریں۔ دراصل ان حقیقی مخیر حضرات کو سیاست کی لت نہیں پڑی ورنہ یہاں تو ’’سیاسی مخیروں‘‘ میں ایک توڑا آٹے کے ساتھ گیارہ گیارہ مرتبہ تصویر بنانے اور پھر اخبارات میں شائع کرانے پر اصرار کرنے کی روایت ہے۔ یہاں شہر کے معروف چوراہوں کی تزئین و آرائش بھی آٹھ ماہ کے قلیل عرصہ میں مخیر حضرات کے تعاون سے ہو گئی اور شہر میں ٹریفک کے مسائل پر قابو پانے کے لئے سروے بھی شروع کرا دیئے گئے۔ چند ماہ میں یہ سب اس شہر میں ہوا جوان دنوں ہزاروں ایکڑ اراضی پر درختوں کے کٹاو کی وجہ سے شدید گرمی کی زد میں ہے جہاں اتنے گھنے اور پھل دار آموں کے درخت ہوا کرتے تھے کہ سورج کی کرنیں زمین تک ہی پہنچ نہ پاتی تھیں اب وہاں کھجوروں کے چند پودے علاقے کی تقدیر پر تازیانے مار رہے ہیں۔
ملتان شہر کے سابق ہونے والے ڈپٹی کمشنر کو چیف منسٹر سیکرٹریٹ میں ایڈیشنل سیکرٹری لگا دیا گیا ہے کمال یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب اب تک جو تقرریاں اور تعیناتیاں کر رہے ہیں اور جس قسم کی ٹیم وہ جمع کر رہے ہیں یہ سلیکشن میاں حمزہ شہباز کی انتظامی امور میں اپنے والد میاں شہباز شریف سے حاصل کی گئی تربیت کی بھرپور عکاسی کرتی ہے اور ظاہر کر تی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب پوری طرح سے آگاہ ہیں کہ کون کیا ہے اور کس سے کیا کام لینا ہے۔ کسی بھی اچھے منتظم میں یہ بہت اہم خوبی ہوتی ہے۔ میاں شہباز شریف جب گزشتہ ادوار میں پنجاب میں وزارت اعلیٰ پر فائز رہے تو ساتھ ساتھ حمزہ شہباز کی باقاعدگی سے تربیت کا عمل جاری رہا اور یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں ان کی انتظامی گرفت تیزی سے مستحکم ہو رہی ہے۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو جن چیزوں کی سمجھ تین سال بعد بھی بمشکل ہی آتی تھی حمزہ شہباز شریف وہ اپنے گھر سے لے کر چلے ہیں کہ گرومنگ تو پہلے ہی ہو چکی تھی، ایسے میں گرفت کون سا مشکل کام ہے۔ پنجاب میں جذبات پر فہم و فراست فی الحال تو غالب دکھائی دیتی ہے اور اگر یہ توازن قائم رہا تو پنجاب میں اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے کہ قابلیت کی حامل ٹیم کا چناو ابھی جاری ہے۔