مجید امجد: قلم کا مزدور (گزشتہ سے پیوستہ)

زندگی کی تمام مادی آسائشوں سے محروم رہنے والا یہ شخص ایسی خوبیوں کا مالک تھا کہ باید و شاید کہیں دکھائی دیتی ہیں، ایک مشہور مقولہ ہے ’جس نے زندگی میں بہت سے مصائب برداشت کیے ہوں وہ بہت نیک یا بہت بد بن جاتا ہے‘۔ مجید امجد کو مصائب نے بہت نیک بنا دیا تھا۔ اگر نیکی سے اوراد و وظائف مراد لیے جائیں تو کسی کو معلوم نہیں کہ وہ عبادات کا کتنا پابند تھا یا نہیں تھا لیکن اگر نیکیوں سے مراد وہ اقدار ہیں جنھیں دنیا بھر میں سراہا جاتا ہے تو شاید ہی کوئی شخص میزان میں اس کے برابر تل سکتا ہو۔ مثلاً میں نے اس سے کبھی کسی کی غیبت نہیں سنی۔ جن لوگوں نے اس سے بہت کچھ سیکھا تھا مگر انھیں زیادہ شہرت مل گئی تو وہ اعتراف کرنے کی بجائے اس کے خلاف باتیں کرنے لگے۔ مثلاً منیرنیازی کے سامنے کوئی شخص امجد کی تعریف کرتا تو اسے اچھا نہیں لگتا تھا۔ لوگ مجید امجد تک یہ باتیں پہنچاتے تھے مگر وہ ہمیشہ زبان اور قلم دونوں سے منیرنیازی کی شاعری کی ستائش ہی کرتا رہا۔ دیگر تمام شعراء کے ساتھ بھی اس کا یہی رویہ تھا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ن م راشد جب ساہیوال جاتا تھا تو کالج کے پرنسپل آغا امجد کے ہاں ٹھہرتا تھا اور آغا صاحب سے فرمائش کرکے امجد کو بلاتا جاتا تھا۔ مجھے اس بات کے کئی شواہد ملے ہیں کہ راشد اپنا کلام سنانے کی بجائے اصرار کرکے مجید امجد سے اس کی نظمیں سنا کرتا اور کہتا یہ تھا کہ میں نے مجید امجد کو نہیں پڑھا۔ وہ سچ ہی کہتا تھا۔ پڑھا نہیں ہوگا لیکن سنا ضرور تھا اور راشد کے آخری دو مجموعوں میں اس کے اثرات بھی دکھائی دیتے ہیں مگر یہ موضوع ایک تفصیلی مقالے کا متقاضی ہے اور کالم اس کی تفصیل کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
ساہیوال (منٹگمری) میں مجید امجد نے اپنی ملازمت کی ربع صدی بسر کی۔ کسی زمانے میں وہ سٹیڈیم ہوٹل اور کیفے ڈی روز وغیرہ میں اکثر بیٹھتے تھے۔ وہاں مقامی شعراٗ بھی ان کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھے جاتے اور جیسا کہ اس قسم کی نشستوں میں ہوا کرتا ہے، اکثر غائب اور کبھی کبھی حاضر افراد کے بارے میں بھی منفی گفتگو ہوتی تھی۔ بہت سے نوجوان شعراء مجید امجد کا بے حد احترام کرتے تھے۔ وہ ان نوجوانوں کو ٹوکتے تو نہیں تھے لیکن خود کسی کے خلاف کوئی بات نہیں کرتے تھے۔ اس بات کا بھی بہت دھیان رکھتے تھے کہ چائے کا بل وہ خود ادا کریں، غالباً انھوں نے سٹیڈیم ہوٹل کے مالک کو، جو ان کا بہت احترام کرتا تھا، یہ کہہ رکھا تھا کہ کسی اور سے چائے کا بل نہ لیا جائے۔ اگر کسی نے کبھی کوشش کرتا تو ہوٹل کے مالک صادق حسین جوگی کہہ دیتا تھا کہ بل امجد صاحب نے ادا کر دیا ہے۔مجید امجد زیادہ عرصہ اسسٹنٹ کنٹرولر محکمہ خوراک رہے لیکن سرکار کا ایک ایک پیسہ انتہائی دیانت داری اور کفایت سے خرچ کرتے۔ دفتر پورے وقت پر جاتے اور پورا وقت کام کرتے۔ ان کا کتنا ہی قریبی عزیز دفتر میں آ جاتا تو چائے پیش کرنے کے بعد دفتر کا کام جاری رکھتے مگر چھٹی کا وقت ہو جاتا تو اسے گھر لے جاتے اور وہاں ماحضر خوش دلی سے پیش کرتے۔ اپنی محدود تنخواہ میں سے مہینے کے شروع میں کچھ لوگوں کو ڈاک خانے جا کر منی آڈر سے رقم بھجواتے مگر اس بات کا اہتمام کرتے کہ ان لوگوں کے نام کسی پر ظاہر نہ ہوں۔
اپنی ذاتی زندگی اور اپنی شاعری کے بارے میں کبھی گفتگو نہیں کرتے تھے۔ بہت ضروری ہو جاتا اور ان کی کوئی نظم کسی کی سمجھ میں نہ آتی تو بہت اصرار پر مختصر سی وضاحت کر دیتے۔ مدیرانِ رسائل و جرائد ان سے فرمائشیں کرتے رہتے اور وہ کلام بھجوا دیتے مگر اس بات کا کبھی اشارہ بھی نہ کیا کہ میرے بارے میں کچھ لکھوایا جائے۔ میں نے احمد ندیم قاسمی کے چند خطوط مجید امجد کے ذخیرے میں بعد از وفات دیکھے ہیں جن میں ان کے کلام کی بہت تعریف کی گئی ہے مگر فنون میں، جہاں تک مجھے معلوم ہے، کبھی ان کے بارے میں کچھ نہیں چھپا۔ مدیرانِ رسائل میں ڈاکٹر وزیر آغا البتہ اس سلسلے میں استثنائی حیثیت کے مالک ہیں کہ ’ادبی دنیا‘ اور ’اوراق‘ میں ان کے بارے میں کچھ نہ کچھ چھپتا رہتا تھا۔ہو سکتا ہے ان کی بعض ذاتی عادات کچھ قریبی لوگوں کو اچھی نہ لگتی ہوں۔ مثلاً اپنی جبری شادی کو انھوں نے کبھی قبول نہیں کیا۔ مالی لحاظ سے البتہ بیوی کے حقوق ادا کرنے کی کوشش ضرور کی۔ اپنی انتہائی پریشان کن زندگی کا کبھی کسی سے ذکر نہیں کیا اور زندگی بھر یہ سب کچھ تنہا جھیلا کیے۔ شاید ان مصائب کو فراموش کرنے کے لیے انھوں نے شراب نوشی اور تمباکونوشی کا سہارا لیا ہوگا۔ مگر شراب کسی کے ساتھ مل کر نہیں پیتے تھے۔ بالکل اکیلے یہ کام کرتے تھے اور رات کو دیر سے شروع کرتے تھے۔ ان کا ایک شعر ہے:
امجد طریقِ مے میں ہے یہ احتیاط شرط
اک داغ بھی کہیں نہ سرِ پیرہن پڑے
سگریٹ لگاتار پیتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ ان کی صحت کبھی اچھی نہ رہی، میں انھیں زندگی کے آخری سترہ سال میں وقفے وقفے سے بار بار ملا ہوں۔ بہت دبلے پتلے اور کمزور دکھائی دیتے تھے۔ آخری چند برسوں میں پھیپھڑے پھر سے متاثر ہو گئے تھے:
اب دردِ شش بھی سانس کی کوشش بھی ہے شریک
اب کیا ہو ، اب تو نیند کو آ جانا چاہیے
لیکن جب کبھی کسی نے علاج کروانے کی پیش کش کی، انھوں نے سلیقے سے انکار کر دیا۔ وفات سے کئی سال پہلے انھوں نے شراب نوشی اور تمباکونوشی ترک کر دی تھیں لیکن اب ’ہونی‘ کو ٹالنا ممکن نہیں رہا تھا۔
اب اس بات پر تو بہت حد تک اتفاق ہو گیا ہے کہ امجد جدید اردو نظم کے چند بڑوں شاعروں میں شامل ہیں۔ اس سلسلے میں ن م راشد، میراجی اور فیض تین ایسے نام ہیں جن کی عظمت کو تسلیم کیا جا چکا ہے مگر ان کے علاوہ مجید امجد اور اخترالایمان بھی اس فہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔ گذشتہ پچاس برسوں میں مجید امجد پر درجنوں کتابیں اور سندی مقالات لکھے جا چکے ہیں۔ ادبی رسائل کے متعدد مجید امجد نمبر چھپ چکے ہیں اور مختلف النوع تنقیدی اور تحقیقی مقالات بلا مبالغہ سیکڑوں کی تعداد میں لکھے جا چکے ہیں۔ اس کے باوجود اس کی شاعری میں فکر و فن کی ایسی وسعتیں اور گہرائیاں ہیں کہ ان کی معنویت کا پورا ادراک ہونا باقی ہے۔ یہ بے مثال اور بے نظیر شاعر اپنی تفہیم کے لیے نقادوں سے عمر بھر کی ریاضت کا طالب ہے مگر بہت جگہ اتنا سہل بھی ہے کہ ایک بار پڑھنے سے حافظے پر نقش ہو جاتا ہے۔ بے شمار شاعر مرتے ہی فراموش کر دیے جاتے ہیں اور بہت کم مجید امجد جیسے ہوتے ہیں جو اپنی آنکھیں بند کرتے ہیں اور ہماری آنکھیں کھول دیتے ہیں۔ (ختم شد)