اتوار ، 13 شوال 1443ھ‘ 15 مئی 2022ء
چیف منسٹر پرائس کنٹرول سیل بنانے کا اعلان، عوام کو ریلیف دینا ہے: حمزہ شہباز
بے شک یہ وقت عمل کا ہے۔ ’’پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے‘‘ ورنہ حالات جس نہج پر جا رہے ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ پچھلی حکومت کے 4 سالہ گناہوں غلطیوں اور حماقتوں کا بوجھ موجودہ حکومت کو مسائل مہنگائی اور بیروز گاری کے سمندر میں لے ڈوبے گا۔ اگرموجودہ حکمرانوں یعنی ہماری سابقہ اپوزیشن میں ذرا بھر بھی عقل ہوتی تو وہ اس مشکل ترین حالات میں حکومت نہ سنبھالتے۔ پی ٹی آئی والوں نے ڈوبتی کشتی دیکھ کر جان چھڑائی ہے۔ ہاں اگر موجود حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس مختصر مدت میں بھی مسائل حل کر سکتے ہیں تو پھر انہیں حق ہے کہ وہ کچھ کرکے دکھائیں۔ عوام کو ریلیف دیں۔ مسلم لیگ (نون) کے پاس سابقہ حکومتی تجربہ بھی ہے تو اسے بروئے کار لائے۔ اگر ناجائز حرام خود یعنی منافع خور باز نہیں آتے توحکومت کے پاس پولیس مقابلوں کا بھی آپشن ہے۔ ان دوچار حرام خوروں کو پھڑکا دیں اس بعد دیکھیں راوی چین ہی چین لکھے گا اور پورے پنجاب میں سرکاری ریٹ لسٹ پر اشیاء کی فراہمی شروع ہوگی۔منافع خوروں گراں فروشوں کو اب نکیل نہ ڈالی تو یہ حکومت کی لٹیا ڈبونے میں ہر اول دستے کا کام انجام دیں گے۔ اس لئے بھاری جرمانے۔ سخت سزائیں سنا کر ہی پورے پنجاب میں سرکاری ریٹ پر اشیائے خورودونوش کی فراہمی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ چند ہزار لوگوں کو نشان عبرت بنا کر اگر پنجاب کے 12کروڑ عوام کو ریلیف مل سکتا ہے تو ضرور دیں۔ ورنہ عوام میں اب برداشت کی مزید تاب نہیں رہی۔
٭٭٭……٭٭٭
پولیس حکام کی عثمان بزدار سے پروٹوکول گاڑیاں واپس کرنے کی درخواست
بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ غلط روایت پوری شدو مد کے ساتھ موجود ہے کہ حکومت سے رخصت ہونے کے بعد تمام وزیر اور مشیر سرکاری گاڑیوں اور گھروں سے بمشکل دستبردار ہوتے ہیں۔ وہ ان گاڑیوں‘ گھروں اور دفاتر میں موجود ہر چیز پر اپنا حق سمجھتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے آسانی سے یہ چیزیں واپس نہیں کرتے۔ یہ صرف عثمان بزدار کا ہی مسئلہ نہیں۔ سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر پر بھی یہی خبط سوار ہے کہ یہ گاڑیاں ان کی ذاتی ملکیت بن چکی ہیں۔ اب ان دونوں اور تمام سابق وزیروں اور مشیروں کو تسلیم کرنا چاہئے کہ وہ ماضی کا قصہ بن چکے ہیں۔ اب ان کے یہ ناز و نخرے اٹھانے والا دور گزر گیا ہے۔ اب وہ ہوٹر والے موج میلے کا مزہ نہیں اٹھا سکتے۔ مگر افسوس ہماری اخلاقی حالت یہ ہے کہ ہمارے وزراء اور مشیر جاتے ہوئے سرکاری دفاتر اور گھروں میں عام استعمال کی اشیاء تک اٹھا کر لے جاتے ہیں کہ جیسے یہ ان کی ذاتی ملکیت ہو۔ ویسے آپس کی بات ہے۔ ہم سب یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ عہدے عارضی ہیں۔ ان کے مزے عارضی ہیں پھر کیوں ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔ جو لوگ خاندانی رئیس ہویانواب ہوتے ہیں ان کے قول و فعل سے کردار سے کہیں نہ کہیں ان کی نجابت جھلکتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں اکثر سیاستدان نو دولتیئے ہیں۔ جبھی تو ’’تمہارا لہجہ بتا رہا ہے تمہاری دولت نئی نئی ہے‘‘ سو اس لئے تمام سیاستدانوں سے گزارش ہے کہ جب وہ اپنا دور حکمرانی کھو دیں تو برائے مہربانی جاتے جاتے:
یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
والا ماحول پیدا نہ ہونے دیں اور اچھے رویئے کا مظاہرہ کریں۔
٭٭٭……٭٭٭
عمران خان کے آٹو گراف والی شرٹ 15 لاکھ میں خریدنے کی پیشکش
یوں یہ بچہ ابوبکر جس کی شرٹ پر خان صاحب نے دستخط کئے ہیں لاکھ پتی بن گیا ہے۔ اگر یہ نسخہ خان صاحب نے اپنے دور حکومت میں اپنایا ہوتا تو کم از کم آج وہ کہہ سکتے کہ ان کی آٹو گراف والی شرٹ‘بلا ۔ ٹوپی ڈائری کا صفحہ فروخت کرکے لاکھوں بے روزگار صاحب روزگار ہوگئے ہوں۔ بیروز گاری ختم کرنے کے لئے یہ نسخہ کیمیا بن جاتا۔ اب بھی تو جس خان صاحب کے دل پھینک عاشق صادق نے خان صاحب کے آٹو گراف والی شرٹ کی قیمت 5 ا لاکھ لگائی ہے۔ ایسے ہزاروں کھلاڑی کپتان کی آٹو گراف والی بنیان۔ جرابیں۔ بیٹ‘ گیند،اور کیپ لاکھوں میں خریدنے کو تیار ہوں گے۔ یوںاگرعمران خان اب اپنی آٹو گرافی والی اشیاء کوتقسیم کرنے کاکام شروع کر دیںتو اس سے لاکھوں لوگوں کو غربت اور بے روز گاری سے نجات مل سکتی ہے۔ یوں وہ کہہ سکیں گے کہ میں حکومت میں رہوں یا حکومت سے باہر رہوں۔ بیروز گاری اور غربت کے خاتمے کے اپنے پروگرام پر عمل کرتا رہوں گا۔ نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔ بروقت کام فائد مند ہوتا ہے۔ اپنے دور حکومت میں وہ غربت ختم نہ کر سکے۔ اب اس طرح کر سکتے ہیں تو پھر دیر کیسی۔ اب ایسا مفت مشورہ ہمارے سوا اور کون دے سکتا ہے۔ عمل کرنا یا نہ کرنا خان صاحب کی مرضی ہے۔ اب اس بچے کی آٹو گرافر والی قمیض دیکھ لیں لاکھوں میں قیمت لگی ہے اس کی اس طرح اگر لاکھوں غریبوں کے پاس خان صاحب کے آٹو گرافر والی اشیاء ہو جائیں تو ان کے بھی دن پھر سکتے ہیں…
٭٭٭……٭٭٭
برطانیہ کی عدالت نے مردوں کو گنجا کہنا جنسی ہراسانی قرار دیدیا
دنیا بھر کے گنجے برطانوی عدالت کے اس فیصلے کی حمایت کرتے ہیں۔ اس طرح کم از کم انہیں نت نئے القابات سے نوازنے کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ ہمارے ہاں تو کئی شادیاں اس لئے نہیں ہو پائیں کہ دولہا گنجا ہے۔ اب بھلا گنجا ہونا کس کے اختیار میں ہے۔ اگر ہوتا تو دنیا میں کوئی بھی گنجا نہیں ہوتا اور یوں ساری دنیا کے مرد اپنے بالوں کی حفاظت سے بے نیاز ہوتے۔ اس کیس سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا بھر میں گنجا ہونا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اور انہیں لوگ طرح طرح کے القابات سے نوازتے ہیں یعنی چھیڑتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی یہی بیماری عام ہے لوگ تو مذاق مذاق میں بالوں سے محروم گنجے سر پر چیت لگانا بھی برا نہیں سمجھتے اس سے گنجوں کو جو تکلیف اور دکھ ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں جو تازہ تازہ گنجے ہو رہے ہیں۔ اب تو وگوں کے علاوہ بھی گنجے پن کے طرح طرح کے روایتی اور غیرروایتی علاج دریافت ہو چکے ہیں۔ مگر دنیا میں گنجوں کی اکثریت اسے تقدیر کا فیصلہ سمجھ کر چپ ہو جاتی ہے۔ اور کسی سے گلہ شکوہ نہیں کرتے۔ اب برطانیہ کی طرح ہمارے ہاں بھی گنجوں کے تحفظ کی کوئی تنظیم اس فیصلہ کی روشنی میں گنجوں کو گنجا کہنے کو جنسی ہراسگی قرار دلوا دے تو بہت سے لوگوں کی زبانوں پر تالے پڑ سکتے ہیں۔ جو ہر بالوں سے محروم نوجوان کو چھیڑتے اوران کا مذاق اُڑاتے پھرتے ہیں۔