چولستان کی سنگین صورتحال
اس افرا تفری کے دور میںہم نے اللہ پاک کو بہت زیادہ ناراض کرلیا ہے اللہ پاک ہم سے اتنے ناراض ہو گئے ہیں کہ ہمیں بارش کی شدید ضرورت ہے مگر بارش نہیں ہو رہی۔ بارش کی کمی کی وجہ سے چولستان میں پانی کی شدید قلّت پیدا ہو گئی ہے جس سے وہاں بسنے والے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو پانی نہ ملنے کے سبب سنگین صورتحال اختیار ہو گئی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر جانوروں کے مرنے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ روہی میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے تقریباً 95فیصد ٹوبے خشک ہو چکے ہیں اور باقی 5فیصد میں پانی ختم ہو رہا ہے جس کی وجہ سے روہیلے بے بس دکھائی دیتے ہیں اور ان کی احتجاج کی ویڈیو منظر عام پر آ رہی ہیں جس میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ روہیلے کتنی آہ و فریاد کر رہے ہیں اپنے بچوں کو اٹھا کر دکھا رہے ہیں کہ دیکھو یہ مرنے والا ہے ہمیں پانی دو ، ہمیں پانی دو ، روزانہ جانوروں کی مرنے کی اطلاعات کے ساتھ ساتھ تصویریں بھی سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملتی ہیں جس میں کئی کئی جانور ریگستان میں مردہ حالت میں بکھرے پڑے ہیں جس کا وہاں رہنے والے روہیلوں کو کروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔بارش نہ ہونے سے تقریباً 65 لاکھ 57 ہزار ایکڑ پر پھیلے چولستان کو خشک سالی کی وجہ سے پریشانی کا سامنا ہے۔ پانی کی کمی کے ساتھ ساتھ جانوروں کیلئے چارے کی بھی کمی ہوئی ہے۔ درجہ حرارت 50 ڈگری سے اوپر ہونے کی وجہ سے جنگلی جڑی بوٹیاں بھی سوکھنے لگی ہیں جس سے جانوروں کو چارہ نہیں مل رہا۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پانی کی کمی کے باعث تقریباً 2200 کے لگ بھگ گائے ، بھیڑ بکریاں ہلاک ہو چکی ہیں۔اونٹ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے اندر پانی کی وافر مقدار جمع رکھتا ہے مگر اب تو ریگستان کا جہاز بھی پانی کی کمی کی وجہ سے اڑنے سے قاصر ہے اور قیمتی ہرن بھی مردہ حالت میں ملے ہیں ۔روہیلے اپنے گھروں کو چھوڑ کر میدانی علاقوں کا رخ کر رہے ہیں مگر میدانی علاقوں کی صورتحال بھی بدتر ہو گئی ہے نہری پانی کا نہ ہونا بھی مزید مشکلات کا باعث بنا ہوا ہے ۔
حکومتی اعدادوشمار کے مطابق چولستان میں 20لاکھ سے زائد جانوروں، 2لاکھ انسانوں کیلئے 4 پائپ لائنوں کے ذریعے پانی کی سپلائی جاری ہے جس سے 60 ہزار جانور اور 34 ہزار سے زائد انسانوں کو پانی مہیا کیا جاتا ہے مگر یہ صرف کاغذی حد تک تو سمجھ آتی ہے مگر دیکھنے میں نہیں آیا ۔ بہاولپور، بہاولنگر، رحیم یار خان میں ڈی، سی اور کمشنر صاحبان، لائف سٹاک کی ٹیمیں سب اس کے ذمہ دار ہیں۔اپنے دفاتر میں اے سی کے نیچے بیٹھ کر سب اچھا ہے کی رپورٹنگ کے اثرات دیکھنے کو مل رہے ہیں، ناکام بیوروکریسی کا یہ عالم ہے کہ 30کروڑ کی لاگت سے بننے والا سوڑیاں واٹر سپلائی پراجیکٹ 13سال بعد بھی فنکشنل نہ ہوسکا۔یزمان، بہاولپوراور بہاولنگر کی سپلائی سکیموں کی توسیع کا منصوبہ 8 سال گزرنے کے باوجود نامکمل،مشرف کے دورِ حکومت میں 50کروڑ کی سکیم شروع کی گئی تھی ، چولستان کیلئے فنڈز کرپشن کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں منتخب نمائندوں نے ایک روپیہ تک نہیں لگایا اگر یہ حالات اس طرح چلتے رہے تو وہ دن دور نہیں کہ پاکستان میں دودھ کی کمی کے ساتھ ساتھ گوشت کی قلت کا سامنا بھی کرنا پڑے گا ۔آخر میں مجھے شاکر شجاع آبادی کی ایک غزل کا شعر یاد آ گیا ہے۔
روندی رہی انسانیت ، انسان کھلدا رہ گیا
آدمی دی سوچ تے حیوان کھلدا رہ گیا