میرے عزیز پاکستانیو آج آپ سے بات کرتے ہیں، آپکو شامل گفتگو کرتے ہیں، یوں سمجھئے آپکی رائے بھی لیتے ہیں، آپ کے خیالات جانتے ہیں، اپنے خیالات آپ تک اور جن ہم وطنوں سے شہر شہر گھوم کر ملے ہیں انکے خیالات آپ تک پہنچاتے ہیں۔ آج ہم گفتگو کرتے ہیں، دکھ سکھ بانٹتے ہیں، ہم ایک دوسرے کے ساتھی ہیں، ہم نئے پاکستان کے ہمسفر ہیں، ہم قائد اعظم کے پاکستان کے متلاشی ہیں، ہم اقبال کے خوابوں کی تعبیر میں لگے ہوئے ہیں۔ ہم محو گفتگو کیوں نہ ہوں، ہم ایک دوسرے کے قریب کیوں نہ ہوں، ایک دوسرے سے دور کیوں رہیں، ہم سب کا مقصد ایک ہے، ہماری منزل بھی ایک ہے، ہماری منزل ترقی پسند، پرامن اور خوشحال پاکستان ہے۔ آج ہم اسی پر بات کریں گے۔
ہم شہر شہر گھومے ہیں، گلیوں بازاروں میں موسموں کی سختیوں کی پرواہ کیے بغیر، دوستیوں کی پرواہ کیے بغیر ملک کے طول و عرض میں وطن کی خدمت کے جذبے سے کام کر رہے ہیں۔ اس نئے پاکستان کے سفر میں ہمارے دشمنوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اب تو دوست بھی دشمنوں کی قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں، اسکی وجہ کیا ہے، اسکی وجہ قومی مفاد کو ترجیح دینا ہے، عزیزوں،دوستوں کو انکار کرنا ہے، سیاسی حیثیت کے غلط استعمال سے انکار کرنا ہے، اسکی وجہ عوامی مسائل میں عوام کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔
سیاست عوام کی خدمت کا نام ہے، سیاست صرف ملک کی خدمت اور حفاظت کا نام ہے، سیاست ایک جذبہ ہے، ایک عزم ہے، ایک سوچ ہے۔ لیکن کیا ہم نے اور ہم سے پہلے گذر جانیوالوں نے سیاست ملک کی خدمت کے لیے کی تھی، عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے کی تھی، کیا ہمارے حکمرانوں نے حکومت ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کے لیے کی تھی، کیا ہمارے حکمرانوں کا مقصد عوام کی فلاح و بہبود تھی یا انکا ایجنڈا کارخانہ لگانا تھا، انکا ایجنڈا تجوریاں بھرنا تھا، یا انکا مقصد اندرون و بیرون ملک جائیدادیں خریدنا تھا، یا ان کا ایجنڈا ملک دشمنوں کے ساتھ ملک کر ہماری بنیادوں کو کھوکھلا کرنا تھا۔
میرے پاکستانیو، اگر حکمران عوامی خدمت کے جذبے کے تحت کام کرتے تو آج ملک کا یہ حال ہوتا، آج بھی ہم پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں، پانی کا بل الگ جمع کرواتے ہیں اور پینے کے پانی پر الگ پیسے خرچ کرتے ہیں۔ بدقسمتی ہے کہ آزادی کی سات دہائیاں گذرنے کے بعد بھی زندگی کی اس بنیادی ضرورت سے محروم ہیں۔ پینے کا جو پانی ہم خریدتے ہیں اس بارے بھی یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ صاف ہے۔ کیا یہ آپکا قصور ہے، کیا یہ میرا قصور ہے، کیا یہ میرے والدین کی غلطی ہے، کیا یہ آپکے بزرگوں کی غلطی ہے، ہم میں سے تو کوئی بھی ملک کا حکمران نہیں رہا۔ یہ ذمہ داری تو حکمرانوں کی تھی کہ وہ ہماری بنیادی ضرورت کی چیزوں کا بندوبست کرتے، یہی صورت حال دیگر شعبوں کی ہے۔ اگر آج نظام تعلیم خراب ہے تو کیا یہ آپ کے والدین کے غلط فیصلوں کا نتیجہ ہے، اگر میرے پاکستانیوں کو آج معیاری سستی تعلیم نہیں ملتی تو کیا یہ پالیسیاں میرے بزرگوں نے بنائی تھیں، اگر سرکاری ہسپتال صحت کی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں، یا صحت کے مراکز ضرورت سے کم ہیں تو اس میں آپکا اور میرا تو کوئی قصور نہیں ہے، ہم تو بات کرنے، ہنسنے، سونے اور سانس لینے کے علاوہ ہر چیز پر برسوں سے ٹیکس دیتے آ رہے ہیں، پابندی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں اسکے جواب میں ہمیں کیا ملتا ہے، صرف یہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ، زندگی مزید سخت، کیا یہ پالیسیاں آپکی یا میری بنائی ہوئی ہیں۔
ہمیں تو صرف ووٹ ڈالنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ہم ووٹ ڈالیں لائنوں میں لگ کر، بجلی، گیس پانی کے بل جمع کروائیں تو لائن میں لگیں، شناختی کارڈ بنوائیں تو لمبی لائنوں میں خوار ہوں، پاسپورٹ بنوانے جائیں تو لمبی لمبی لائنوں میں پورا دن خوار ہوتے رہیں۔ مجھے آپکو لائنوں میں لگا کر ہمارے ووٹوں سے منتخب ہونے والے بیرونی آقاؤں کے سامنے لائن میں لگے ہوتے ہیں کہ سر اب مجھے لوٹنے کی باری کا موقع دیں، میں ہر حکم کی تعمیل کروں گا۔ ہمیں لوٹنے کے منصوبے بھی بیرون ملک بنتے رہے ہیں، ہمیں تو ہر مرتبہ سبز باغ دکھا کر لوٹا گیا ہے، یہی تکلیف آپکے بزرگوں نے برداشت کی ہے، اسی تکلیف سے ہمارے بزرگ بھی گذرے ہیں۔
اگر حکمرانوں نے عوامی خدمت کے منصوبوں پر کام کیا ہوتا تو میرے ملک کے عوام پر زندگی سخت نہ ہوتی، انہیں سکون نصیب ہوتا۔ ان کے پاس بھی تفریح کے مواقع ہوتے، سوچنے کا وقت ہوتا، تعمیری کام کا وقت ہوتا۔
ہم گلی گلی گھومے ہیں، عوام کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ملک لوٹنے والوں کے ساتھ کوئی نرمی نہیں ہونی چاہیے، ملکی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے۔ ملک کو مقروض کرنے والوں کا احتساب برائے نام نہیں ہونا چاہیے، انہیں سزائیں دیں، پیسے واپس لیں، ملک کا قرض اتاریں۔ اس سے بڑا کوئی مطالبہ نہیں ہے۔
عزیز ہم وطنو سابق حکومت نے قرضے لینے کے نت نئے طریقے ایجاد کیے اور نتائج کی پرواہ کیے بغیر قرض پر قرض لیتے گئے، وزارت خزانہ کے دفتر کا ایسا غلط استعمال ہوا ہے کہ حقائق سامنے آنے پر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ یہ رہنما تھے یا راہزن!!!!!
آج ملکی معیشت کا جو حال ہے اسکی وجہ عمران خان ہے، یہ کھربوں کا قرضہ عمران خان نے لیا تھا، یہ سرکاری املاک کو گروی عمران خان نے رکھا تھا۔ یہ سب ان نام نہاد سیاسی قائدین کا کیا دھرا ہے جسکا خمیازہ آج سارا پاکستان بھگت رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو حکومت چلانے میں مسائل کا سامنا نہیں ہے، پی ٹی آئی کو ان سرکاری غیر سرکاری قرضوں کی ادائیگی کا مسئلہ ہے۔ ہر فائل ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ ہر فائل میں اربوں کے قرضے ہیں۔ ان قرضوں کی قسطیں حکومت نے ادا کرنی ہیں، یہ سارا پیسہ دکھاوے کے منصوبوں اور کرپشن کی نذر ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بدترین معاشی دور سے گذر رہے ہیں۔
میرے پاکستانیو ہمیں بھی مل کر سوچنا ہے کہ کیا ہم نے ہمیشہ لائنوں میں لگنا ہے یا عزت کی زندگی گذارنی ہے، کیا ہم نے سسکتے سسکتے زندگی کے دن پورے کرنے ہیں یا پھر معیاری زندگی کا سامان کرنا ہے۔ کچھ ذمہ داری حکومت ہے کچھ ذمہ داری ہماری ہے۔ جو غلطیاں ہمارے بزرگوں نے سادگی میں کی ہیں ہم نے انہیں دہرانا نہیں ہے۔ ہم نے نئی نسل کو ملک کے خدمت گار حکمران دینے ہیں۔ ہم نے ملک کا مستقل لٹیروں، ڈاکوؤں کے سپرد نہیں کرنا۔ ہم نے ایک نئے پاکستان کی تعمیر کرنی ہے۔ جو سب کو صلاحیتوں کے اظہار کے یکساں مواقع دے، سب کو عزت دے، سب کو اچھی اور معیاری زندگی دے۔ ایسا پاکستان جہاں ریاست آپکے جان و مال کا تحفظ کرے نا کہ ریاست کے حکمران خود چوروں کے سرغنے بنے نظر آئیں۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ پاکستان ضرور بنے گا۔ ہم سب کو خوابوں کی تعبیر ملے گی۔ عمران خان اس ملک کو رہنماؤں کے بھیس میں چھپے راہزنوں سے نجات دلائے گا اس سفر میں آپ نے اور ہم اس کا ساتھ دینا ہے کیونکہ یہ ہمارے اور آپکے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38