استحکام پاکستان
گزشتہ 70 سال میں اگر ہمارے حکمران 95 فیصد محنت کشوں اور کسانوں کو قومی دھارے سے نکال کر باہر نہ کرتے تو آج Agro Base پاکستان ترقی اور خوشحالی کی منزلیں طے کر کے دنیا کے صف اول کے ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتا۔ اس سے بڑا المیہ کیا ہو گا کہ ہمارے سیاستدان اور رہنما مستحکم نظام نہ تو قائم کر سکے اور نہ ہی ملک و قوم کو استحکام کی راہوں پر گامزن کر سکے۔چند روزہ اقتدار میں خداوند کریم مواقع فراہم کر کے انسانوں کی بھلائی کے احکام جاری فرماتا ہے۔ اس سلسلہ میں ہمارے سامنے روشن مثالیں موجود ہیں کہ برصغیر ہندو پاک کی وسیع و عریض مملکت میں شیر شاہ سوری نے مختصر ترین عرصہ 5 سال میں انسانی فلاح و بہبود کے ایسے ایسے کارہاے نمایاں سرانجام دئیے کہ جن سے آج بھی برصغیر کے کروڑ ہا عوام استفادہ اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان کو قدرت نے بے پناہ قدرتی اور آبی وسائل اور دنیا کی بہترین افرادی قوت عطا فرمائی ہے جن کو ہماری برسراقتدار قوتوں اور سیاستدانوں نے بری طرح ضائع کر کے عالمی برادری میں آج تضحیک کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ برعکس اس کے قومی مفاد عامہ کے اداروں کو ہی تباہی و بربادی سے دوچار کر دیا۔ جن میں معروف ادارے سٹیل ملز‘ پی آئی اے ‘ پی ٹی سی ایل وغیرہ ہماری نااہلیوں اور نالائقیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ قومی اور عوامی نمائندگی تو اسے کہتے ہیں کہ ہمارے عوامی نمائندے آگے آ کر ملک و قوم کے وسیم تر مفاد میں اپنی حاصل کردہ املاک اور تنصیبات اور اداروں کو فروخت کر کے اس مختصر سی آبادی پر مشتمل با وسائل ملک میں نسل نوکے نونہالوں کے لئے تعلیمی ترقی اور ان کو بلا تفریق سہولتیں میسر کر کے تعلیمی میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دیتے تو تاریخ میں ان کا نام سنہری حروف سے لکھا جاتا۔
جبکہ ہمارے پاس اب پینے کا صاف پانی بلکہ عام پانی بھی میسر نہیں ہے۔ بلکہ ہم کئی گنا زیادہ آبادی والا ملک بھارت کے حکمران‘ سیاستدانوں اور رہنما¶ں نے پانی ‘ بجلی اور دیگر بنیادی ضروریات اور تعلیمی ترقی کے لئے دن رات محنت کر کے ہمیں شیشہ دکھا رہے ہیں۔ زرعی شعبہ میں ہم سے کم تر وسائل کے باوجود زرعی ترقی میں ہم سے کہیں آگے نکل گئے ہیں۔ اسی جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ سنگا پور اور ملائشیا و انڈونیشیا ترقی میں ہم سے کہیں آگے نکل گئے ہیں۔ کیا فائدہ ہوا 90فیصد محنت کشوں ‘کسانوں اور مزدوروں کو قومی دھارے سے باہر کرنے کا....!آج بھی اس عظیم 90 فیصد آبادی کو مواقع فراہم کئے جائیں تو وہ نہ تو اہم ترین قومی ادارے فروخت کریں گے اور نہ ہی ملک کو خوشحالی اور ترقی میں دنیا میں پاکستان کو پیچھے رہنے دیں گے۔ بلکہ قلیل عرصہ میں 10 فیصد خواندگی کا ہدف حاصل کر لیں گے۔ جبکہ قومی آمدنی اور GDP میں سو فیصد اضافہ کر کے ملک کو قرضوں اور سود سے نجات دلا دیں گے۔ وہ اس چیلنج کو صرف عرصہ تین سال میں پورا کر کے دکھائیں گے اور ہر فرد خواہ ہ بزرگ شہری ہے بے روزگار اور بے کار ہے 15 ہزار ماہانہ اعزازیہ دیں گے اور ملک کے ہر شہری کو سوشل سیکیورٹی کی سہولتیں مہیا کریں گے۔ بے روزگاری کا خاتمہ یوں کریں گے کہ پہلے مرحلہ میں 50 لاکھ کسانوں کو امن کے ذریعے ملک میں اس طرح امن و امام قائم کریں گے کہ کسی پاکستانی کی انگلی زخمی ہو گی اور نہ ہی کسی پاکستانی کی نکسیر بہے گی جدید سہولتیں دیں گے ۔ یاد رکھیں جس نظریہ کے تحت یہ ملک قائم ہوا اور بے پناہ قربانیاں دی تھیں اس کا تقاضا ہے کہ ہم سب مل کر کام کریں ہمہ وقت باوضو رہ کر ملک و قوم کی سلامتی کیلئے ہمہ وقت برسرپیکار رہیں گے۔ کسانوں کی اس 98 فیصد عظیم آبادی کو نہ تو کرسی کی خواہش ہے اور نہ ہی اقتدار کی بلکہ وہ یہ تمام امور شیڈو سسٹم کے تحت سرانجام دیں گے۔