’’ٹپکے کا ڈر‘‘
بجٹ آیا ,اور ماضی بن گیا،عجب بات ہے کہ مداح بھی چپ ہیں اور نکتہ چینوں کے پاس بھی کہنے کو کچھ نہیں،بجٹ کی ایسی بے وقعتی اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی،کسی کو دلچسپی نہیں،اور ہو بھی کیوں؟ گذشتہ چند سال سے سارا سال بجٹ ہی آتا رہا ہے ، میزانیہ میںاقدامات کا اعلان ،اور باقی سارے سال ان کو رول بیک کرنے کا سلسلہ،تو ایسے بجٹ کی دستاویزات میں پکوڑے بیچنے والوں کو ہی دلچسپی ہو سکتی ہے،یہ تو بے قدری کی ایک وجہ ہوئی،اور بھی بہت کچھ ہے جس کے باعث کسی کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ کچھ معیشت اور معاشرت کولائق توجہ سمجھے،سب ’’ٹپکے کے ڈر‘ کا شکار ہیں،اردو بھی کیا وسیع زبان ہے،ہر تاثر اور حالت کو بیان کرنے کے لئے کہاوتیں موجود ہیں ،ان میں ’’ٹپکے کا ڈر بھی ہے،یہ جو نگران حکومت بننے والی ہے ،اور جو ملک میں انتخابات ہونے والے ہیں یا کون جیت رہاہے ،کون جیل جا رہا ہے ،یا انتخابات ہوں گے بھی یا نہیں ،ان تما م معاملات پہ جو بحثیں ہوتی ہیں اور جو بھی دانش ور اور قابل رحم اینکرز ان چیزوں کے بارے میں دور کی کوڑیاں لاتے ہیں،ان کے سننے اور پڑھنے کے بعد بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ ٹپکے کے ڈر نے سب کو بے حال کیا ہوا ہے ،کہتے ہیں کہ ایک سپاہی تلاش معاش میںاپنے ٹٹو پر سوار کہیں جا ررہاتھا کہ راستے میں رات ہو گئی،سنسان مقام اور یہ ڈر بھی کہ بارش آنے والی ہے،اسے کچھ دور ایک چراغ کی روشنی نظر آئی،وہ وہاں پہنچا تو دیکھا ایک چھوٹی اور پرانی سی جھونپڑی ہے اور اس میں ایک بڑھیا ہے،اس نے جھونپڑی میں پناہ لی اور اس سے پوچھا’’مائی یہاں شیر تو نہیںآتا میں نے اپنا ٹٹو باہر باندھ دیا ہے ،بڑھیا نے جواب دیا کی شیر ویر کا تو پتہ نہیں،میں تو ٹپکے سے ڈر رہی ہوں،کیوں کی اس سے بچنا محال ہے،اتفاق سے باہر ایک شیر بھی ٹتو کی تاک میں موجود تھا اس نے جو سنا تو وہ بھی چکر میںآگیا اور سوچنے لگا کہ یہ ٹپکا کیا بلا ہے؟جو مجھ سے بھی ذیادہ خطرناک ہے،بڑھیا مجھ سے ذیادہ اس سے ڈرتی ہے ،اسی اثنا میں تٹو شیر کی بو پا کر ہنہنانے لگا،سپاہی سونٹالے کر باہر نکلا اور اندھیرے میںشیر کو ٹٹو سمجھ کر مارنا شروع کیا،شیر یہ سمجھا کہ یہی وہ ٹپکا ہے جس سے بڑھیا ڈر رہی تھی،اس لئے کان دبائے ہوئے پٹتا رہا،سپاہی نے کچھ دم لیا اور بعد میں شیر کو اپنا ٹٹو سمجھ کر اس پر سوار ہو اور چل پڑا کچھ دیر میں بارش شروع ہو گئی تو اس نے شیر کو درخت سے باندھا اور ایک عمارت کے برامدے میںپناہ لی اور سو گیا ،صبح لوگوں نے دیکھا کہ ایک شیر درخت سے بندھا ہے ،پاس سپاہی سو رہا ہے، اس پر بڑی شہرت ملی اور بہادری کا انعام بھی،تو اس ‘‘ٹپکے‘‘ نے کیا خوب گل کھلایا ،ٹپکے کا خوف دلا کر بہت سی غلط فہمی پھیلائی جا رہی ہے ،کبھی انتخاب سے پہلے احتساب اور کبھی ٹیکنو کریٹس کی لمبی حکومت کی بات رکھ کر سرگوشیاں کی جاری ہیں ، شائد ملکی سلامتی کے متعلق ایشوز اور تنازعات اٹھائے جا رہے ہیں، ٹپکے سے ڈرانے والے کچھ چیزیں بھول جاتے ہیں،ملک میں آئین ہے،تو کیا کوئی غیر آئینی چیز ممکن ہے ؟ایسی سوچ اس وقت ممکن ہو سکتی ہے جب آئین اپنا وجود نہ رکھتا ہو،اس لئے نگران حکومت کے بننے اور اس سے اقتدارنئی حکومت تک منتقل ہونے کے سب مراحل واضح ہیں اور ان سے روگردانی کا کوئی راستہ نہیں ہے،اس لئے جو افواہیںپھیلاتے ہیں دراصل ان کا مسلہ کچھ اورہے ،ان کے من میں ڈر اور چور ہے،اس کی وجہ سے ’’ٹپکے‘‘ سے لوگوں کو خوف ذدہ کر رہے ہیں ،ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ آئین کی عمارت مظبوط ہے جو آندھی اور بارش کا مقابلہ کر سکتی ہے ،اس کے دروازے سے وہی گزر سکتا ہے جس کے پاس آئین کا پروانہ ہو،باقی قانون کے معاملات ہو سکتے ہیں،ان سے نمٹنے کا طریقہ بھی قانون ہی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ،یہ جو ریت چل نکلی ہے کہ کسی ڈر کے باعث ’’نئے ،نئے تنازعات پیدا کئے جائیں یا آئینی اور قانونی اداروںکے بارے میں شکوک کھڑے کئے جائیں ،یہ بہت ہی افسوسناک اور خطرناک کھیل ثابت ہو سکتا ہے ،یہ ایک ایسا راستہ ہے جس پر چل کر کسی کو کامیاب ہوتے نہیں دیکھا گیا ہے ،ایک بات یا آ گئی،ملک میں نیم جمہوری حکومت تھی،میں اس وقت یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا، سٹوڈنٹس کا ایک گروپ گومل یونیورسٹی سے لاہور آیا،ان کی مدیر نوائے وقت جناب مجید نظامی مرحوم و مغفور سے ملاقات کرائی گئی ،بات مارشل لاء اور جونیجو حکومت کی کمزوری اور محازآرائی کی جانب مڑ گئی،جناب مجید نطامی مرحوم نے اس وقت ملک میں پھیلی محاذ آرائی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ جو بھی اس وقت نطام ہے، اس کو چلنے دینا چاہئیے،اور اس کومظبوط بنانا چاہئیے،کسی نے آپ کا ایک روپیہ دینا ہے اور وہ 50پیسے دینے کے لئے تیار ہے،تو سب سے پہلے وہ 50پیسے لے کر جیب میں ڈال لیں اور اس کے بعد باقی پچاس پیسوں کا تقاضہ شروع کریں،ان کا اشارہ محاز آرائی نہ کرنے کی جانب تھا،اسی طرح کے حالات اس وقت بھی ہیں ،عقل کا تقاضہ یہی ہے کہ جو ہاتھ میں ہے، اس کو سنبھال لیں اور صبردکھائیں،’’ٹپکے‘‘ کے شک میں مبتلا عناصر سے بھی درخوست ہے کہ وہ راست خیالی کیا کریں اس قوم کے قلب ودماغ سے نہ کھیلا کریں اس سے آخر میں ان کے ہاتھ میںبھی شرمندگی کے سوا کچھ نہیں آئے گا،تحریر یہاں تک پہنچی تھی کہ ٹی وی پر کراچی میں پی پی پی کے جلسے سے بلاول بھٹو زرداری کا خطاب شروع ہو گیا ،مخالفین پر نکتہ چینی تو معمول کا سلسلہ ہوتا ہے ،خطاب میںجو بھی باتیں کی گئیں ان میں اعتدال ہے ،مستقبل کی فکرنظر آتی ہے جو بہت ہی خوشگوار احساس ہے ،اعتدال اور اپنے مقصد سے لگائو سے دنیا کی ہر ریس کو جیتا جا سکتا ہے،اچھے ساتھی میسر ہوں تو روشنی میں آگے کی راہ صاف دیکھائی دینا شروع ہو جاتی ہے۔