جعلی مقدمات میں پھنساکر 40کروڑ کی قیمتی جائیداد ہتھیانے کی کوشش
سجاد اظہر پیرزادہ sajjadpeerzada1@hotmail.com
معاشرے میں برائیوں کی بھرمار ایک طرف‘فیملی جرائم اور پراپرٹی فراڈ کانیارحجان خطرناک حد تک فروغ پارہاہے۔یہ واقعات باعث تشویش ہےں کہ ہمارے شہروں کی پوش سوسائیٹیز میں رہائش پذیربیشتر پڑھے لکھے خاندان لالچ اور راتوں رات امیر بننے کی ہوس میں قبضہ گروپوں کے منفی ہتھکنڈوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ہی گھرانے کے افراد کی جائیداد ناجائز طور پر ہتھیانے کی کوششوں میں مگن ہورہے ہیں۔ جرائم پیشہ ذہنیت کے مالک یہ پڑھے لکھے حضرات اپنے ان گھناو¿نے عزائم کو پورا کرنے کے لئے اپنی ہی بہنوں اور بیٹیوں کو بھی فراڈ میں ”شریک جرم“ کے طورپراستعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتے ہیں۔ان ہتھکنڈوں کے ذریعے یہ لوگ اپنے بہنوئیوں اور دامادوں کی قیمتی جائیدادیں ہڑپ کرنے کی کو شش کرتے ہیں۔ایسی ہوس و لالچ کےلئے oral giftکے قانون کا غلط استعمال اورجھوٹے مقدموں کا سہارابھی لیاجارہا ہے۔جس کی وجہ سے نہ صرف عدالتوں پر جعلی مقدموں کابے پناہ بوجھ پڑرہا ہے،بلکہ عدلیہ کا قیمتی وقت بھی بے پناہ ضائع ہورہا ہے۔
©©”نوائے وقت کرائم کارنر“کی تحقیقات اور مختلف اخبارات کی خبروں کا جائزہ لینے کے بعد یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اسی طرح کا ایک واقعہ حال ہی میںلاہور کے پوش ایریا میں رہنے والے پڑھے لکھے خاندان میںہوا۔عدالتی ریکارڈ کے مطابق 6مارچ 2018ءکو مقامی عدالت نے 6سال سے چلنے والے طویل مقدمات کا فیصلہ سنایا ۔جس کے مطابق لاہورڈیفنس سوسائٹی کی رہائشی روبینہ قریشی نامی خاتون کا اپنے شوہر کی 15کروڑ کی کوٹھی اور بیٹے احمد فواد قریشی کی اپنے والد کی 25کروڑ کی بلڈنگ پر oral gift کے قانون کے تحت ملکیت کا دعویٰ عدالت نے مسترد کر دیا۔ جب نوائے وقت کرائم کارنر نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ 40کروڑ مالیت کے ان مقدمات کے اندر گواہان مدعیہ کے بھائی رہائشی کیلوری گراﺅنڈ محمد طارق اور بہنوئی میجر(ر)جاوید بشیر پیش ہوئے۔عدالت نے دوران جرح ان دونوںکی گواہی سنی اور ان کے بیانات کو بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور فیصلہ فواد قریشی کے حق میں دیدیا۔ان جعلی اور فراڈ سے بھرپور مقدمات کی خبریں ملک کے مختلف اخبارات میں بھی شائع ہوئیں۔
معاشرے میں ان جرائم کے بڑھتے ہوئے رحجان کو سمجھنے کیلئے ہم نے مذکورہ افراد سے ان کا موقف لینے کے لئے رابطے کیے۔ جن میں فواد قریشی ، ان کی اہلیہ اور بیٹا، ان کے بھائی طارق اور جاوید بشیر اور دیگر متعلقہ افراد شامل ہیں۔ہمیں معلوم ہوا کہ فواد قریشی پاکستانی نژاد کینیڈین ہیں جن کی ایک معذور بچی کینیڈا کے ہسپتال میں پچھلے 7سال سے کینیڈا کی عدالت کے حکم کے مطابق زیر علاج ہے۔ان کی اہلیہ روبینہ قریشی شوہر کی مرضی کیخلاف 6سال قبل اپنی معذور بچی کوکینڈا کے ہسپتال میں چھوڑ کر پاکستان آگئیں۔
چھ سال کی اس طویل المیعاد اور اذیت ناک مدت کے دوران ایک طرف تو فواد قریشی کی یہ معذور بچی زندگی اور موت کی کشمکش میں کینیڈاکے ہسپتال میںاپنی زندگی کی جنگ لڑتی رہی اور دوسری طرف اس کی سفاک ماں اپنے بھائی کے ورغلانے پرپاکستان میں اپنے شوہرکی پراپرٹی پرناجائز مقدمہ کی جنگ لڑتی رہی،یہ امر قابل افسوس ہے کہ اس دوران ماں نے ایک دفعہ بھی بچی کو کینڈا جا کر نہیں دیکھا۔
اس دوران ان خاتون نے اپنے گھروالوں کے بہکاوے میں آکرنہ صرف اپنے شوہر کی پراپرٹی پرملکیت کے جھوٹے دعوے کئے بلکہ انہوںنے ایک مقدمہ نان نفقہ کی بابت بھی کیا ہوا ہے،جبکہ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ عدالتی ریکارڈ کے مطابق مدعیہ اپنے شوہر کے ساتھ ڈیفنس سوسائٹی کی کوٹھی میں ہی رہتی ہیں،ان کی گاڑیاں، ان کا پیسہ استعمال کرتی ہیںاور اس کے باوجود انہوں نے نان و نفقہ کا مقدمہ درج کیا ہوا ہے۔
ہم نے ان مقدمات کے اصل محرکات اور اغراض و مقاصد جاننے کی کوشش کی، یہ بات صاف ظاہر ہورہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں بسنے والی مشرقی خواتین اس طرح کے جرائم میں ملوث نہیں ہوتیں جب تک کہ ان کے پیچھے مضبوط معاون اورسہولت کار نہ ہوں۔یہ بات صاف عیاں ہے کہ اس مقدمے میں ان کے بھائی محمد طارق اور بہنوئی جاوید بشیر معاون اور سہولت کار تھے ،کیوں کہ وہ ان تمام مقدمات میں بطور گواہ خود عدالت میں پیش ہوئے،عدالت نے ان کی گواہی جھوٹی اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دی۔
مقدمے کے گواہان طارق اورجاویدبشیر کے عدالتی بیانات کے مطابق فواد قریشی ایک کمزور کردار کا مالک ہے، مگر اس نے یہ پراپرٹی اپنی بیوی کوہبہ کی،مگر بعد میں یہ ہب سے مکر گیا،جبکہ فواد قریشی کا عدالتی موقف یہ ہے کہ اس نے کوئی پراپرٹی اپنی بیوی یابیٹے کو حبہ نہیں کی۔
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ پڑھے لکھے اور مہذب گھرانوں میں اگر داماد بدچلن ہوتا ہے تو سسرال والے اپنی بیٹی کو خاموشی اورعزت سے گھر بٹھالیتے ہیں ،عدالتوں میں جا کر اپنے خاندان کورسوا نہیں کرتے ۔سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر 30سال سے بہنوئی میں یہ تمام خرابیاں تھیں تو سسرال والوں نے خلع کا مقدمہ کیوں نہیں کیا؟پراپرٹی کا مقدمہ کیوں کیا؟۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ جب بیوی اپنے شوہر کے ساتھ اس کے گھر میں رہتی ہو تونان نفقہ کا دعویٰ کرنے کا کیا جواز بنتا ہے؟۔سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ فواد قریشی کی واحد اہلیہ ہونے کی وجہ سے شوہر کی زندگی کے بعد یہ ساری جائیداد ان ہی کوملنی تھی تو پھر ان کی اہلیہ کو یہ جائیداد اپنے نام کروانے کی اتنی جلدی کیا تھی جبکہ فواد قریشی ابھی تو حیات ہیں؟۔کیایہ جلدی فواد قریشی کے سسرال والوں کو تھی؟ جنہوں نے محض لالچ کی وجہ سے دو میاں بیوی کا ہنستا بستا گھر اجاڑ دیا؟۔ ان پہلوﺅں اور اس جیسے دیگر مقدمات پر غور کرنے سے پتاچلتا ہے کہ ان مقدمات کا اصل مقصد فواد قریشی جیسے ان لوگوںکو ہراساں کرکے ملکی معیشت کو نقصان پہچانا ہے، جو بیرونی سرمایہ وطن میں لاکر ملکی معیشت کو فروغ دینے کی بڑی وجہ بنتے ہیں۔
جب ہم نے یہ سوالات مدعیہ ،ان کے بھائی محمد طارق اور بہنوئی طارق بشیر کے آگے رکھے اورجب ہم نے ان کا موقف لینے کیلئے متعدد بار رابطہ کیا اورپیغام بھجوائے تووہ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے انہوں نے اپنے موقف میں عدالتی بیان دہراتے ہوئے کہا فواد قریشی نے اپنے بیٹے اور اہلیہ کو جائیداد oral gift کی ہے، اب مکر رہے ہیں۔اور جب ہم نے فواد قریشی سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ میں نے اپنی کوئی جائیداد بیوی یا بیٹے کو oral giftنہیں کی، مجھے میرے سالے طارق اور جاوید بشیر نے 6سال سے بہت پریشان کیا ہوا ہے، میں ملک کی خدمت کرنے کے لئے پیسہ پاکستان لایا تھا کہ تاکہ پراپرٹی بیچ کر ملک میں کارخانے لگاﺅں ،تاکہ عوام کو روزگار میسر ہو اور ملکی زرمبادلہ میں اضافہ ہو۔25مئی کو میری بچی کا کینیڈا کے ہسپتال میں آپریشن ہے،وہ بیچاری وہاں تڑپ رہی ہے، میری بیوی نے اپنے بھائی کی باتوںمیں آکے معصوم بچی کے پاس جانے سے انکار کر دیا، لہٰذا میں اکیلا کینڈا جارہاہوں۔
معاشرے میں ابھرتے ہوئے ان جرائم سے بے پناہ منفی اثرات جنم لے رہے ہیں، ان میں سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور اپنی ہی اولاد سے ماں کے اس بے حس رویے کی مثال شاید ہی کہیں ملتی ہو۔ لالچ کی اس اندھیرنگری میں بسنے والے ان جرائم پیشہ ذہنیت کے مالک اس بھائی نے یہ بھی نہ سوچا کہ اس کی بہن کی شادی کو 30سال ہوگئے ہیں اور وہ بچی جو پچھلے 7سال سے کینیڈا کے ہسپتال میں اکیلی موت کی جنگ لڑ رہی ہے، وہ بھی ماں کی محبت و توجہ کی طلب گار ہے۔اس بچی کو پیسے کی لالچ میں اس کی ماں سے محروم کرنے کا اصل محرک لالچ اور راتوں رات امیر بننے کی خواہش ہے۔
ایسے جھوٹے مقدمات کے معاشرے پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔فیملی جرائم کی ایسی وجوہات کے سبب ملک میں بیرونی سرمایہ کاری اور امن و امان قائم کرنے کی راہ میں 7 بڑی رکاوٹیں کھڑی ہورہی ہیں۔جو قابل غور ہیں:۔
(1) قومی/معاشرتی اقدارکا نقصان
(a) بیرونی سرمایہ کاری میں رکاوٹ
(b) عدالتوں کے وقت کا ضیاع اور جھوٹے اور جعلی مقدمات کا بوجھ عدالتی نظام پر
(2)بیرون ملک وطن کی خدمات کرنےوالے پاکستانیوں پر ظلم۔ وطن کامالی نقصان
(3) سماجی مسائل کے سلسلوںکا افسوسناک پہلو۔انسانی حقوق کی حق تلفی۔ باہررہنے والے بیمار پاکستانیوںکے وطن واپسی میںعلاج کی حق تلفی
(4) خاندان میں علیحدگی۔ بیوی کا شوہر سے علیحدہ ہونا اور معصوم بچوں کا کفالت اور والدین کی دیکھ بھال سے محروم ہونا۔
(5) سسرالیوں کی بے جا مداخلت سے خاندان کی تباہی، لالچ اور حرص کی بنیاد پر میاں اوربیوی میںرکاوٹیں
(6) واردات جرم میں اپنوں کو استعمال کرکے ایک دوسرے سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جدا کرنیکاطریقہ
(7) ذاتی اور مذموم مقاصد کیلئے قانون کا غلط استعمال۔
معاشرے کو زنگ آلود کرنے والے ایسے واقعات کے متعلق ڈپٹی اٹارنی جنرل آف پاکستان جاوید قصوری نے کہا کہoral gift کے قانون کو جعلی مقدمات میں استعمال کئے جانے کا رحجان بڑھ رہاہے اور اس کی وجہ سے فیملی فراڈ کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے۔عدالتوں کو ایسے جھوٹے مقدمات خارج کر کے مدعیوں کو سخت سزا دینی چاہئے۔ مفتی مولانا خلیل احمد قادری نے بتایا کہ اسلام میں جھوٹ بولنے یا کسی پر غلط الزام لگانا سخت گناہ ہے۔جھوٹے مقدمات نہیں کرنے چاہئے۔
ہم نے کینیڈا کے ہسپتال میں زیر علاج پاکستانی نژادکینڈین فواد قریشی کی بچی سے سکائپ پہ بات کرنے کی کوشش کی، لیکن اپنی معذوری کی وجہ سے یہ ہم سے گفتگو نہیں کر سکی ، بلکہ باپ کی سکائپ کال جانے کی وجہ سے اپنی خوشی کا اظہار اپنے چہرے کی مسکراہٹ سے ہاتھ ہلا کے کرتی رہی کہ جیسے کہہ رہی ہو کہ پاپا ماماکو لے کر جلد آجائیں ۔مگر اس معصوم بچی کو کیا خبر کہ ہمارے معاشرے میں سسرال والوں کی بے جا مداخلت کی وجہ سے اکثر بچے اپنے والدین کی شفقت سے محروم ہوجاتے ہیں ، بالکل اسی طرح جیسا کہ پچھلے 7سالوں میں سندس اپنے والدہ کی شفقت سے محروم ہے!!۔