کھل جا سم سم
موجودہ حکومت اپنے اقتدار کے آخری دنوں سے لطف اندوز ہو رہی ہے اور نئے الیکشن کے نتیجے میں آنے والی نئی حکومت کیلئے سیاستدان اپنے تانے بانے بنتے نظر آرہے ہیں۔ ممکنہ اقتدار کی چھتری تلے جمع ہونے والوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے اور موسمی پرندوں کی ڈاریں ادھر سے ادھر پرواز کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ ایک طرف سیاستدان جلسے اور ریلیوں میں مصروف ہیں تو دوسری طرف ایک دوسرے پر الفاظ و بیانات کے تابڑ توڑ حملے بھی کر رہے ہیں۔ کل کے حکمران آج کی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اور اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔ اپنے سینے میں دفن رازوں کو افشا کرنے کی تگ و دو میں ہیں اور قومی سلامتی کو پس پشت ڈالنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے دشمنوں کوخوش کرنے کے ساتھ ساتھ جگ ہنسائی کا بھی باعث بن رہے ہیں۔ کاش ہمارے ماضی کے اور مستقبل میں آنے والے حکمران جوش کے ساتھ ساتھ ہوش کا بھی مظاہرہ کریں اور اپنے ذاتی مفاد اور اقتدار کی خواہش میں ملکی سلامتی کو ہرگز نہ بھولیں۔
عدالت عظمیٰ کے چیف بھی ملکی اداروں کو صحیح سمت میں لانے کیلئے جدوجہد میں مصروف ہیں۔انہوں نے کئی مقفل کواڑوں کو کھولنے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔ وہ جس در پر جاتے ہیں انہیں بند ہی دکھائی دیتا ہے اور وہ کھل جا سم سم کہہ کر کواڑوں کے بند قفل کھولنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں آوے کاآوا ہی بگڑا نظر آتا ہے۔ ہسپتال‘ تعلیمی ادارے۔ ملکی نظام اور اس کو چلانے والے اہلکار پولیس غرض ہر طرف انہیں اصلاح کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ملکی اداروں کاحال تو کچھ اس شعر کی طرح ہے۔
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے
انجام گلستان کیا ہو گا
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملکی ادارے انحطاط کا شکار ہیں۔ کرپشن نے لوگوں کو راتوں رات امیر ‘ اداروں اور عوام کو مفلوک الحال بنا کے رکھ دیا ہے۔ نااہل اور کرپٹ لوگوں کااداروں پر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونا ایسا ہی ہے جیسے دودھ کی رکھوالی بلی کے حوالے کر دی جائے شاید اسی لئے ملکی خزانہ خالی اور خزانے کے محافظوں کی جیبیں بھری نظر آتی ہیں۔ پہلی مرتبہ حکمران طبقے کا احتساب ہو رہا ہے تو یہ سب کچھ عجیب دکھائی دے رہا ہے۔ خود حکمرانوں کو بھی اس بات کا یقین نہیں آرہا اور بیچاری عوام تو شروع ہی سے شک و شبے کا شکار ہے۔ صحت اور تعلیم فلاحی ریاست کے لئے ستون کی اہمیت رکھتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے ایک اسلامی فلاحی ریاست کے لئے اس ذمہ داری کی اہمیت کا عملی مظاہرہ کیا اور آج کی ترقی یافتہ اقوام انہیں اصولوں پر عمل پیرا ہو کر اپنی حکومتوں کو مضبوط اور عوام کو خوشحال بنانے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ ہماری بیچاری عوام کی ساری کمائی بچوں کی تعلیم اور ان کے علاج معالجے پر خرچ ہو رہی ہے اور ہمارے حکمران میڈیا پربلند بانگ دعوے کرنے میں مصروف ہیں۔
عدالت عظمیٰ کے چیف کے مختلف اداروں کے دوروں اور اداروں کی چھان پھٹک پر کچھ لوگ معترض ہیں اور جس کا کام اسی کو ساجھے کے مقولے کو یاد کر رہے ہیں۔ ان اداروں کے ارباب اختیار اور کارپردازان کو ان اداروں کے معاملات سے خود سے کوئی خبر کیوں نہیں ہوتی۔ وہ ان کے معاملات سے لاتعلق کیوں رہتے ہیں اور مثبت نتائج کیوں نہیں حاصل کرتے۔ جب تک حکمران قانون کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھتے رہیں گے اور سزا و جزا صرف غریب لوگوں تک محدود ہو گی اس وقت تک انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے۔ آج اگر ووٹ کو عزت دینے کے نعرے کو فروغ دیا جا رہا ہے تو پھر ووٹ کے تقدس کا بھی خیال رکھا جائے۔ شفاف الیکشن کے نتیجے میں آنے والی حکومت کی راہ میں رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں۔ دھونس دھاندلی اور سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال سے پرہیز کیا جائے تو پھر ہی ووٹ کے تقدس اور ووٹ کی طاقت کااندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ عوام بھی اب نئے جال کے پرانے شکاریوں کے نشانے سے بچنے کیلئے اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کریں تو شاید کوئی بات بنتی دکھائی دے۔ اقتدار کی خواہش مند سیاسی پارٹیاں بھی وراثتی طرزعمل اور محض اقتدار کی خواہش کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ عوامی فلاح کا منشور اور عوام کو ایک اچھا اور شائستہ سیاست کا ماحول دیں توشاید عدالتی احتساب اور عوامی ووٹ کی طاقت کے احتساب سے ایک طرح سے بند دروازے اور مقفل کواڑ کھلتے نظر آئیں۔