پاکستان کے پانچ پیارے
ہم پاکستانی ایک بکھری ہوئی اور منقسم قوم ہیں۔ سیاسی اتفاق رائے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مذہب و مسلک کے حوالے سے بھی یگانگت اور ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ ملکی ترقی و خوشحالی اور عالمی سطح پر اپنا مقام بنانے کیلئے نیشنلزم کی ناگزیریت مسلمّ اصول ہے۔ نیشنلزم کا خصوصی طور لیڈر شپ میں ہونا نہایت ضروری ہے۔ ہماری لیڈر شپ عمومی طور پر اس سے عاری ہے۔ قومی مفاد پر ذاتی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ قائداعظم نیشنلزم کا بہترین نمونہ و مثال ہیں۔ انہوں نے اپنی تمام جائیداد پاکستان اور پاکستان کے اداروں کے نام کر دی تھی۔ ہماری سیاسی قیادتیں اور سٹیک ہولڈر قائداعظم کی زندگی کو آئیڈیل بنا لیں تو پاکستان آج بھی ترقی کی دوڑ میں ڈارک ہارس ثابت ہو سکتا ہے۔
جہاں ہم نظریات کے حوالے سے، سیاست کے حوالے سے تقسیم شدہ قوم ہیں وہیں اب کچھ مثبت اشارے بھی مل رہے۔ سیاسی طور پر مایوس قوم کچھ سٹیک ہولڈر زکے ملک و قوم کے مفاد کیلئے سرگرم کردار سے حوصلے میں ہے یہ عوام کے عمومی رویئے کی بات ہو رہی ہے۔ وسیع تر اتفاق تو اس پر بھی نہیں ہے۔ میری دن بھر لوگوں سے ملاقاتیں اور گفتگو ہوتی ہے۔ ان میں سیاسی ، مذہبی ، سماجی رہنما اور کارکن بھی شامل ہیں۔ سیاسی لیڈرشپ میں میاں نوازشریف، عمران خان، آصف زرداری کی اہمیت پر دو رائے نہیں۔ ہماری سیاست آج انہی تین شخصیات کے گرد گھومتی ہے۔ میاں نوازشریف نے سیاست میں اپنے متبادل کے طور پر شہبازشریف کو ان کے سر پر پارٹی صدارت کا تاج رکھ کر آگے بڑھایا ہے۔ زرداری کی سیاست شاید اس عروج پر کبھی نظر نہ آئے جس پر 2008ءمیں انتخابات کے موقع پر تھی۔ عمران خان قسمت آزمائی کر رہے ہیں جبکہ میاں نوازشریف کے جاں نشین شہبازشریف اپنی کارکردگی کی بنا پر ایک بڑا سیاسی قد کاٹھ رکھتے ہیں۔ میاں نوازشریف کی شخصیت کے اثرات قومی سیاست اور مسلم لیگ ن کی مقبولیت پر بہرحال پڑتے ہیں۔ ان کی سپریم کورٹ سے نااہلیت ہو چکی، وہ جو بیانیہ لے کر اٹھے ہیں خصوصی طور پر عدلیہ کے حوالے سے اور ووٹ کو عزت دو کی تحریک، ان کے اثرات بہرحال موجود ہیں جو کہیں مثبت اور کہیں منفی ہیں جو مسلم لیگ ن کی انتخابات میں سیاست پر بھی پڑیں گے۔ گزشتہ دنوں چیئرمین نیب کی طرف سے ایک رپورٹ پر نوازشریف کو نوٹس دیاگیا کہ انہوں نے منی لانڈرنگ کے ذریعے 4.9 ارب ڈالر بھارت بھجوائے ہیں۔ اس پر پارٹی لیڈر شپ کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ میاں نوازشریف نے چوبیس گھنٹے میں چیئرمین کو ثبوت پیش کرنے دوسری صورت میں معافی مانگنے اور مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ میاں نوازشریف کے لئے اس پر عوامی حمایت نظر آئی، محض خبروں پر میڈیا رپورٹ پر اتنی بڑی شخصیات کو نوٹس دینے کی محدود عوامی سطح پر پذیرائی ہوئی جبکہ کافی حد تک ناپسندیدگی نظر آئی۔ چیئرمین نیب کا بھی اپنا ایک موقف ہے وہ کہتے ہیں کہ قومی خزانے کے محافظوں کو جوابدہ ہونا ہوگا۔ میاں نوازشریف کی اس معاملے میں حمایت جاری تھی کہ انہوں نے ایک متنازع انٹرویو دے کر پارٹی کوالجھن میں ڈال دیا اور پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ اب ملک کی اعلیٰ لیڈر شپ اس بیان پر پریشان اور فوج سمیت غیر جانبدار حلقے بھی حیران و انگشت بدندان ہیں۔ اتفاق سے میاں صاحب کا انٹرویو بھی سرل المیڈا نے ہی کیا جس نے مشہور زمانہ ”ڈان لیک“ رپورٹ دی تھی جس کی بھینٹ پرویز رشید، فاطمی اور راﺅ تحسین چڑھ چکے ہیں۔ اب ڈان کو دیئے گئے انٹرویو میں میاں نواز شریف نے کہا۔”کیا غیر ریاستی عناصر کو یہ اجازت دینی چاہیے کہ وہ ممبئی جا کر 150 افراد کو قتل کریں، ممبئی حملہ کیس راولپنڈی کی خصوصی عدالت کیوں مکمل نہیں کرتی“۔ جس کے بعد بھارتی میڈیا کی جانب سے پاکستان اور عسکری اداروں پر الزامات کا سلسلہ شروع کردیاگیا۔ میاںنواز شریف کے غیر ذمہ دارانہ، متنازع اور گمراہ کن بیان کا جائزہ لینے کیلئے پاک افواج کی تجویز پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس گزشتہ روز طلب کیا گیا۔
اجلاس کیلئے وزیرِاعظم کوفوج نے تجویز دی گئی تھی۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت وزیرِاعظم کرتے ہیں جس میں دفاع، خارجہ، خزانہ، داخلہ اور اطلاعات کے وزرا، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، تینوں مسلح افواج کے سربراہان، انٹیلی جنس اداروں کے سربراہ اور مشیر قومی سلامتی شرکت کرتے ہیں۔ن لیگ کے صدر شہباز شریف کا کہنا ہے کہ نواز شریف کا انٹرویو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ دوسری طرف مریم نواز شریف کا کہنا ہے کہ میاں صاحب نے جو کہا ملکی مفاد میں کہا۔اگر ملکی مفاد مریم نواز کی سوچ کے مطابق طے ہونا ہے تو پھر ملک و قوم کا خدا ہی حافظ ہے۔مریم کے اس انٹرویو کو اون کرنے سے لگتا ہے کہ یہ انٹرویو کسی پلاننگ کے تحت دیا گیا جسے میاں صاحب کو موجودہ صورتحال سے بیل آﺅٹ کرانا ہو سکتا ہے۔ میاں صاحب نے جو کچھ کہا یہ پاکستان کے مکار و عیار دشمن بھارت کا بیانیہ ہے جس کی فریب کاری میں امریکہ بھی آیا ہوا ہے۔ میاں نوازشریف کے اس بیان کو عوامی سطح پر سخت ناپسند کیا گیا ہے جو انتخابات کی دہلیز پر کھڑی پارٹی اور میاں شہبازشریف کیلئے مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔ آج عوامی سطح پر پانچ شخصیات کی کارکردگی کو عموماً ڈسکس کیا جاتا اور ان کے بارے میں زیادہ تر لوگوں کے ہاںمثبت سوچ پائی جاتی ہے ان کے کام اور کارکردگی کے حوالے سے چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار، چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا خان، چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال اور پنجاب کو ترقیوں کی نئی منزلوں سے روشناس کرانے والے میاں شہبازشریف شامل ہیں ۔ میری دانست میں ان کو پاکستان کے پانچ پیارے کہا جا سکتا ہے۔
آج کچھ لوگوں کو انتخابات کے انعقاد پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں۔مگر ہمارا یقین پہلے کی طرح بدستور قائم ہے کہ انتخابات اپنے وقت پر ہونگے جن میں شہباز شریف کی پارٹی عمومی اکثریت سے کامیاب ہوتی نظر آتی ہے البتہ میاں نواز اور مریم نواز انتخابات تک پارٹی معاملات سے لاتعلق ہوجائیں اور بیان بازی سے گریز کریں تو شہبازشریف کی طلسماتی صلح جو سیماب پا اور اداروں کیساتھ مفاہمت پر کاربند شخصیت مسلم لیگ کو بڑی کامیابی دلا سکتی ہے۔