سیاست کا گونگا پہلوان
میاں نواز شریف 1985ءمیں وزیراعلی پنجاب بنے تو لکھی ہوئی تقریریں پڑھا کرتے تھے لیکن سیاست میں ان کی اڑان خاصی اونچی تھی سو ان کے مخالفین نے انہیں سیاست کے گونگا پہلوان کا خطاب دیا۔ یہ ریکارڈ کی بات ہے کہ 1993ءکے الیکشن کے نتیجے میں میاں نوازشریف قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بنے تو قومی اسمبلی کے فلور پر اس وقت کے وفاقی وزیر چودھری اعتزاز احسن نے انہیں چیلنج دیا کہ ”میاں صاحب آپ پندرہ منٹ فی البدیہہ تقریر کرکے دکھا دیں تو میں آپ کو سیاستدان تسلیم کر لوں گا“ نواز شریف نے اس چیلنج کو قبول کیا اور قومی اسمبلی میں لگ بھگ ایک گھنٹہ فی البدیہہ تقریر کی جہاں چودھری اعتزاز احسن نے ان کی جیت تسلیم کی وہاں نواز شریف کے حامی اور مخالفین بھی ان کی اس شاندار فی البدیہہ تقریر پر حیران رہ گئے۔
میاں صاحب کو اس دن زبان کیا لگی پھر انہیں فی البدیہہ گفتگو اور تقریریں کرنے میں مزا آنے لگا وگرنہ وہ جلسوں اور تقریبات میں اپنی تقریر سے پہلے شیخ رشید احمد اور سیالکوٹ کے سید افتخار الحسن شاہ عرف ظاہرے شاہ کی تقریروں کا مزا لیا کرتے تھے۔ لاہور کے ایک سیاسی کارکن مولوی ہلچل سے اپنی تقریر سے پہلے ”ہل نے مچا دی ہل چل“ کی نظم سننا بھی ان کا شوق تھا۔ اب مولوی ہلچل دنیا میں نہیں ہیں جناب نواز شریف فی البدیہہ تقریر اور گفتگو عام طور پر اچھی کرنے لگے ہیں کبھی کبھار انہیں اپنا لکھا ہوا پڑھ کر بولنے کا پرانا طریقہ یاد آ جاتا ہے لیکن میری رائے میں انہوں نے پھر جب جب اس طرح کی کوشش کی وہ سننے اور دیکھنے والوں پر اچھا تاثر قائم نہ کر سکے۔
میاں صاحب کی ایک اور عادت بھی بڑی دلچسپ ہے‘ وہ سیدھی گفتگو کرنے کی بجائے سوالیہ انداز اختیار کرتے ہیں، اس سے پہلے کہ ہم ان کی غیر ریاستی عناصر کے حوالے سے انٹرویو کی طرف بڑھیں میں یہاں ایک ذاتی تجربہ بیان کروں تو بے جا نہ ہو گا جس میں ان کے سوالیہ انداز میں گفتگو سے مجھے ذاتی طور پر رنج پہنچا، یہ 2008ءکی دوپہر تھی اور مقام تھا ماڈل ٹاﺅن ایچ 180/188 بی بی بے نظیر بھٹو شہید ہو چکی تھیں الیکشن 2008ءکی آمد آمد تھی اور آصف علی زرداری اپنی پیپلز پارٹی کی اس وقت کی ٹیم کے ہمراہ وہاں میاں صاحب سے ملنے تشریف لائے تھے۔ ملاقات کے بعد پریس کانفرنس جاری تھی۔ میں نے کہا کہ میرا ایک سوال آصف زرداری صاحب کے ساتھ ہے اور ایک میاں صاحب کے ساتھ ہو گا۔ زرداری صاحب سے میں نے پوچھا کہ ”آپ اور آپ کی پیپلز پارٹی نے میاں نواز شریف اور ان کی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کئے ہیں کہ ”فوج کی سیاست میں دخل اندازی نہیں ہو گی“ میرا سوال یہ ہے کہ فوج تو مسلح ادارہ ہے اگر وہ سیاست میں دخل دینے پر تل جائے تو اسے اس سے باز رکھنے کے لئے آپ کون سا فارمولا استعمال کریں گے؟“ جناب زرداری نے میرا سوال سنا اور طرح دے گئے۔ کسی دیگرصحافی دوست نے اگلا سوال داغ دیا۔ میاں صاحب نے مداخلت کی اور کہا کہ ”خواجہ صاحب! آپ نے کہا تھا کہ ایک سوال زرداری صاحب اور ایک سوال میاں صاحب سے پوچھوں گا، آپ نے مجھ سے تو سوال پوچھا ہی نہیں، اس پر زبردست قہقہہ پڑا اور زرداری صاحب بولے ”خواجہ صاحب آپ میاں صاحب سے سوال پوچھیں“ مجھے یاد ہے کہ اسی دور میں رائے ونڈ کا کوئی ایشو مو جود تھا اور اس کے حوالے سے ہی میں نے میاں صاحب سے سوال پوچھا مگر ........ میاں صاحب بولے کہ آپ کے اس سوال کا جواب میں بعد میں دوں گا‘ پہلے میں آپ کے اس سوال کا جواب دینا چاہتاہوں جو آپ نے زرداری صاحب سے پوچھا تھا۔ پھر میاں صاحب مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہا ”خواجہ صاحب آپ فوج کے ہاتھوں ملک کا اور کتنا بیڑہ غرق کروانا چاہتے ہیں؟“ ان کے اس جواب سے میرے تن بدن میں آگ لگ گئی اور میں نے اپنی بہت بے عزتی محسوس کی لیکن حقیقت کیا تھی؟ میاں صاحب میری بے عزتی نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ فوجی حکمرانوں کی مداخلت سے تین مرتبہ کے مارشل لاءکے باعث ملک و قوم کا اتنا زیادہ نقصان ہو گیا اور اب جبکہ الیکشن آ رہا ہے، میثاق جمہوریت ہو چکاہے، اب بھی آپ سوچتے ہیں کہ فوج مداخلت کرے گی۔ یہ وضاحت انہوں نے خود بعد میں کی تھی جب اس روز کی اپنی خفگی کے دو روز بعد میں نے وہیں ماڈل ٹاﺅن کے گراﺅنڈ میں لگی کنوپی میں پریس کانفرنس کے دوران اپنا غصہ نکالا تھا۔ میاں شہبازشریف اس پریس کانفرنس کو کنڈکٹ کر رہے تھے اور لائیو ٹیلی کاسٹ ہو رہی تھی۔ میاں شہباز شریف نے مائیک سے میرا نام سوال کرنے کے لئے پکارا میں کھڑا ہوا اور کہا کہ ”میں نے ان صاحب سے کوئی سوال نہیں پوچھنا“ اور اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔ پنڈال میں سناٹا چھا گیا۔ شہباز صاحب نے میرے ساتھ بیٹھے جنگ کے ایڈیٹر رپورٹنگ پرویز بشیر کو سوال کرنے کی دعوت دی۔ پریس کانفرنس کے اختتام پر جب میں دفتر نوائے وقت جا رہا تھا کہ شہبازشریف صاحب کا ٹیلی فون آیا، وہ کہہ رہے تھے کہ خواجہ صاحب! آپ نے یہ کیا حرکت کی؟ میں نے انہیں دو روز پہلے کا واقعہ سنایا اور انتہائی غصے سے کہا کہ ”آپ کے بھائی صاحب کو یا بات سمجھ نہیں آتی یا انہیں بندوں کی پہچان نہیں ہے“ انہوں نے بڑے بھائی سے اس معاملے میں بات کرنے کا کہا۔ اس کے بعد ہماری ملاقات میں میاں صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو نہیں کہہ رہا تھا وہ الفاظ جو اوپر میں لکھ چکا ہوں نوازشریف نے کہے اور بولے کہ یار ایسی بات سوچنی بھی نہیں چاہئے کہ ہم سب نے ماضی سے سبق سیکھ لئے ہیں۔
اب ہم آتے ہیں نوازشریف کے انٹرویو کی طرف جب نواز شریف سے پوچھا گیا کہ آپ کو عہدے سے کیوں ہٹایا گیا تو انہوں نے اس کا جواب دینے کی بجائے گفتگو کا رخ خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کی طرف موڑ دیا اور کہا کہ ہم نے خود اپنے آپ کو تنہا کردیا ہے، قربانیاں دینے کے باوجود ہمارا بیانیہ تسلیم نہیں کیا گیا جبکہ افغانستان کا بیانیہ تسلیم کیا جا رہا ہے، ہمیں اس معاملے پر ضرور توجہ دینی چاہئے۔ انہوں نے اپنی گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد تنظیمیں سرگرم عمل ہیں انہیں نان سٹیٹ ایکٹر قرار دیا جائے لیکن کیا ہم انہیں اجازت دیں گے کہ وہ بارڈر کراس کریں اور ممبئی میں 150 افراد کو مار دیں؟ ہم اس مقدمے کو کیوں مکمل نہیں کر سکتے؟ ممبئی حملوں سے متعلق ایک ریفرنس ابھی تک راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پڑا ہے، یہ قطعی طور پر ناقابل قبول ہے۔ بھارتی میڈیا نے ان کے انٹرویو کے اس حصے کو اپنے حق میں استعمال کیا جبکہ پاکستان میں نواز شریف کے مخالفین اور میڈیا میں بھی اُن کے ان خیالات کی خوب خبر لی گئی۔ اب سوموار کو احتساب عدالت کے باہر گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے سیدھے سبھا¶ جو بات کی اس میں کہا کہ دہشت گردی کی جنگ میں ہم نے قربانیاں دیں، فوج نے قربانیاں دیں، 50 ہزار سے زائد لوگ شہید ہوئے پھر بھی دنیا ہمارا م¶قف ماننے کو کیوں تیار نہیں۔ انہوں نے ڈان میں اپنے انٹرویو کا حوالہ دیا کہ اس میں انہوں نے کہا کہ ممبئی ٹرائل کیوں مکمل نہیں ہو سکا؟ حالانکہ ہمارے پاس بھی کم شواہد نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ انٹرویو پر قائم ہیں اور ان سے پہلے مشرف، درانی اور رحمان ملک بھی یہ بات کہہ چکے ہیں۔ قوم جانتی ہے کہ میاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی چیرہ دستیوں کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ یہ وجہ ہے کہ اُن کے خلاف تو مقدمات روزانہ کی بنیاد پر چلتے ہیں جبکہ دوسروں کے ساتھ الگ سلوک ہے۔ نواز شریف نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا، اسے غدار کہنا اور مشرف جس نے دو مرتبہ آئین توڑا اسے محب وطن قرار دینا دو روئیے ہیں جو ملک کو خطرناک حالات کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے۔ !