منگل ‘ 28 شعبان المعظم‘ 1439 ھ ‘ 15 مئی 2018ء
مطالبات کے حق میں نابینا افراد کا دوسرے روز بھی میٹروبس ٹریک پر دھرنا
ایک طرف سپریم کورٹ کے ایکشن پر ملک میں پہلی مرتبہ سول سروس کا امتحان پاس کرکے ٹاپ آنے والے نابینا نوجوان کو جج لگانے کا تاریخی قدم اٹھایا گیا ہے جس سے ہمارے سر فخر سے بلند ہوگئے ہیں تو دوسری طرف لاہور میں عرصہ دراز سے نابینا حضرات کبھی مال روڈ پر کبھی میٹرو بس ٹریک پر آئے روز دھرنا دے کر اپنے مطالبات منوانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ایک تو موسم کی سختی، دوسری طرف ظالم پولیس والوں کے دھکے اور ڈنڈے ، اس کے باوجود یہ نابینا حضرات بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ حکومتی نمائندے آ کر انہیں لارا لپا لگاکر رفو چکر ہو جاتے جس کی وجہ سے اپنے مسائل حل نہ ہونے پر یہ پھر دھرنے دینے نکل پڑتے ہیں۔ حکمران جماعت ہو یا اپوزیشن‘ کسی کو بھی ان سے لگتا ہے کو ئی ہمدری نہیں ہے۔ یہ بے چارے مایوسی کے عالم میں کبھی آسمان کی طرف اور زمین کی طرف ٹامک ٹوئیاں مارتے نظر آتے ہیں۔یہ کوئی معاف کرانے کیلئے اربوں کے قرضے نہیں مانگ رہے۔ یہ اپنے جائز مطالبات کے حق میں باہر نکلتے ہیں ۔ اندھے ہو کر آنکھوں والوں سے انصاف طلب کر رہے ہیں۔ شاید یہ نہیں جانتے کہ انصاف کی دیوی کی آنکھوں پر بھی کالی پٹی چڑھی ہوتی ہے وہ بھی اندھی ہوتی ہے۔ محبت کے بعد دوسری چیز ہے انصاف جو اندھا ہوتا ہے اسی طرح آنکھوں والوں کو بھی اپنے سے آگے کچھ نظر نہیں آتا۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ جاتے جاتے ان کی دعائیں لے کر جائیں ان کے جائز مطالبات پورے کریں۔ آگے الیکشن میں یہی دعائیں کام آئیں گی۔
٭....٭....٭....٭
مینار پاکستان پر ایم ایم اے کا طاقت کا مظاہرہ
متحدہ مجلس عمل کا یہ تاریخی جلسہ اگرچہ اتنا پاور فل نہیں تھا جتنا اس کا دعوی کیا جا رہا تھا یا عمران خان کا تھا۔مگر بہرحال یہ بات تسلیم کرنا پڑےگی کہ تمام مذہبی جماعتوں کے قائدین اپنے اپنے حامیوں کو چاروں صوبوں سے جلسہ گاہ تک لانے میں کامیاب رہے ۔ بنیادی طور پر یہ جلسہ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جماعت اسلامی کے رنگ میں ڈوبا نظر آیا ۔ یہ مینار پاکستان کی عظمت، قرارداد پاکستان کی حقانیت اور قائداعظم کی بصیرت کے حضور ان دونوں جماعتوں کا بہت بڑا خراج عقیدت ہے۔ جنہوں نے تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کیلئے کوئی خاص کردار ادا نہ کیا بلکہ مخالفت ہی کی۔ گزشتہ شب یہ سب اسی جگہ جمع تھے جہاں سے قیام پاکستان کی ابتدا ہوئی۔ اس مینار پاکستان کے سائے تلے جا بجا بھاری تعداد میں جے یو آئی (ف ) اور جماعت اسلامی کے پرچموں کی بہار تو عروج پر تھی ۔ مگر ایم ایم اے کا پرچم جو ان جماعتوں کے اتحاد کی علامت ہے منظر سے غائب رہا۔ حالانکہ اس پاور شو میں صرف ایم ایم اے کا پرچم لہرانا چاہیے تھا تاکہ سب کو پتہ چلتا ہے کہ اس پرچم کے سائے تلے یہ سب ایک ہیں مگر اپنی اپنی طاقت کے مظاہرے کا نشہ ہی کچھ اور ہے۔ اس پاور شوکے شوق میں ان جماعتوں کو شاید پاکستانی پرچم لہرانا بھی یاد نہیں رہا۔بہر حال خدا کرے یہ اتحاد مبارک ثابت ہو ان سب کےلئے جو حکمرانی کے مزے بھی لوٹتے رہے اور اب اپوزیشن کا نام استعمال کرکے ایک بار پھر میدان سیاست میں کود رہے ہیں۔
٭....٭....٭....٭
”ویمن آن ویل“ 700 خواتین کو موٹر سائیکلیں مل گئیں
ٹرانسپورٹ کے حوالے سے خواتین کو ہمیشہ سے بے شمار شکوے اور شکایات رہی ہیں۔ بسوں ، ویگنوں میں سفر کرنا ان کےلئے کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا ۔ طرح طرح کے لچے لوفر انہیں بس سٹاپ سے لےکر بس اور ویگن پھر وہاں سے لیکر گھر کے دروازے تک تنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر ان مسائل کا حل کسی کے پاس نہیں تھا۔ بسوں میں جالیاں لگیں زنانہ حصے الگ ہوئے مگر رش نے یہ کام بھی بے کار بنا دئیے ویگنوں کی تو بات چھوڑیں۔ عورتوں کو مردوں کے درمیان یا ڈرائیور کے ساتھ جانوروں کی طرح ٹھونسا جاتا ہے ۔ موجودہ حکومت پنجاب نے پنک بس اور پنک رکشے جیسے خواتین دوست اقدامات کیے۔ یہ گلابی بسیں اور رکشے چند ایک ہی مقامات پر نظر آئے۔ بعدازاں شاید انہیں نظر بد کھا گئی۔کچھ عرصہ سے لاہور میں کچھ خواتین نے بھی ہمت مرداں مدد خدا کے فلسفے کے تحت موٹرسائیکل چلانا سیکھی اور اس پر سفر کرتی نظر آئیں۔ یوں وہ اپنے گھر والوں کو بٹھا کر اطمینان سے جہاں جانا ہوتا ہے آتی جاتی ہیں اسی طرح کئی جواں ہمت لڑکیوں نے بھی ہمت دکھائی اور وہ سکولوں اور کالجوں یا یونیورسٹی موٹرسائیکل پر آنے جانے لگیں۔ اب اسی جذبہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے حکومت پنجاب نے لاہور میں 700 لڑکیوں کو جنہیں موٹرسائیکل چلانا آتی ہے آسان اقساط پر موٹرسائیکلیں فراہم کی ہیں تاکہ انہیں لوکل ٹرانسپورٹ کے سفر کے عذاب سے نجات ملے اور وہ بھی عام لڑکوں کی طرح موٹربائیک نکال کر دفتر ، کالج یا گھر والوں کے ساتھ رشتہ داروں کے ہاں آ جا سکیں پورے پنجاب میں ایسی 5000 موٹرسائیکلیں لڑکیوں کو دی جا رہی ہیں۔ جس کے بعد لڑکیاں بھی کہہ سکیں گی ”میں تے موٹرسائیکل لے وی لئی“۔
٭....٭....٭....٭
الیکشن نہ لڑنے کا اعلان، اقتدار بہادر آباد کے سپرد کرتا ہوں : فاروق ستار
بیانات کے حوالے سے نجانے کیا بات ہے فاروق ستار بھی اپنے سابق قائد کی راہ پر چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ صبح بات کی شام کو اسکے برعکس موقف اختیار کر لیا ۔ رات کو بات کی صبح اس سے انکاری ہوگئے۔ اسکے باوجود اپنی غلطی کبھی تسلیم نہیں کی الٹا دوسرا کو غلط قرار دینے کا شغل اختیار کئے رکھا۔ پہلے فاروق ستارکی ہی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بہادر آباد گروپ سامنے آیا تو ستار بھائی نے اسے مسترد کرنے کا اعلان کیا۔ پھر جب ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما دھڑا دھڑا صبح دوپہر شام پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہونے لگے تو ایک بار پھر فاروق ستار کو بہادر آباد والے یاد آئے مگر سینٹ الیکشن کے حوالے سے بھی فاروق ستار نے قبلہ تبدیل کر لیا جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ ایم کیو ایم کے بچے کھچے ایم این ایز اور ایم پی اے جن پر بکاﺅ ہونے کے الزام لگے وہ بھی پاک سرزمین پارٹی میں سمو گئے ، توپیپلزپارٹی نے کراچی میں جلسہ کرکے اپنی دھاک بٹھا دی جس کے جواب میں اب پھر فاروق بھائی نے بہادر آباد والوں کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ایک بھاری جلسہ کرکے دکھا دیا۔جس سے دونوں دھڑوں میں اتحاد کی امید پیدا ہوئی۔
اب اچانک پھر یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ میں خیرات میں ملی کنونیر شپ قبول نہیں کروں گا اور ایم کیو ایم کی قیادت بہادرآباد والوں کے سپرد کرنے کا اعلان کر دیا۔ اب دیکھتے ہیں وہ مزید کتنے دن اپنے اس اعلان پر قائم رہتے ہیں کیونکہ جن لوگوں کے پاﺅں میں سفر بندھے ہوں وہ بھلا آرام سے کب بیٹھتے ہیں۔
٭....٭....٭....٭