انکے بیانیے کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے قائدین کیلئے ان کا دفاع کرنا مشکل ہوگا
میاں نوازشر یف کا حق بات کہتے رہنے کا اعلان اور وزیراعظم کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کا ان کا بیان مسترد کرنے پر اتفاق رائے
قومی سلامتی کمیٹی نے ممبئی حملوں سے متعلق بیان اور الزامات کو متفقہ طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹھوس حقائق کے برعکس بیان پیش کرنا بدقسمتی ہے‘ ممبئی حملہ کیس کے التواءکا ذمہ دار پاکستان نہیں بھارت ہے۔ بھارت نے تفتیش کے دوران متعدد بار تعاون اور مرکزی ملزم اجمل قصاب تک رسائی دینے سے بھی انکار کیا۔ اجمل قصاب کی عجلت میں پھانسی کیس مکمل نہ ہونے کا اہم سبب بنی۔ پاکستان سمجھوتہ ایکسپریس اور بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے حوالے سے بھارتی تعاون کا تاحال منتظر ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم ہاﺅس اسلام آباد میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں وزیر دفاع و خارجہ خرم دستگیر خان‘ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل‘ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیرمحمود حیات‘ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ‘ چیف آف نیول سٹاف ایڈمرل ظفرمحمود عباسی‘ چیف آف ایئرسٹاف ایئر مارشل مجاہد انورخان‘ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار‘ مشیر قومی سلامتی ناصر خان جنجوعہ اور دوسرے سینئر سول و فوجی حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں ممبئی حملوں سے متعلق 12 مئی 2018ءکو روزنامہ ڈان میں شائع ہونیوالے بیان کا جائزہ لیا گیا اور متفقہ طور پر بیان کو غلط اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ ٹھوس حقائق کے برعکس بیان پیش کرنا بدقسمتی ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ پاکستان دہشت گردی کیخلاف جنگ میں تمام محاذوں پر اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔
یہ بات اپنی جگہ بجا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نیب کے مقدمات اور چیئرمین نیب کی جانب سے اٹھائے جانیوالے بعض اقدامات کے باعث مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔ تاہم کسی قومی قائد اور مدبر کی ایسے حالات میں ہی آزمائش ہوتی ہے کہ وہ کس طرح تدبر اور معاملہ فہمی کے ساتھ درپیش چیلنجوں اور مشکلات سے عہدہ برا¿ ہوتا ہے۔ اس تناظر میں بطور قائد مسلم لیگ (ن) اور بطور سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کو ایک مدبر لیڈر کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے اپنی ذاتی آزمائش کو ملکی اور قومی مفادات پر ہرگز حاوی نہیں ہونے دینا چاہیے مگر میاں نوازشریف کی اب تک کی پالیسی سے بادی النظر میں یہی تاثر ملتا ہے کہ وہ اپنے موقف پر کسی مفاہمت پر آمادہ نہیں۔اگر نیب کے مقدمات میں انکی ذات ملوث نہ ہوتی اور پھر وہ ملک و قوم کے مفادات کے تناظر میں اداروں کے کسی کردار کو تنقید کا نشانہ بناتے اور قومی سیاست پر حاوی ”سٹیٹس کو“ توڑنے کی بات کرتے تو انکی بات میں زیادہ وزن ہوتا مگر انہوں نے ”خلائی مخلوق“ کی اصطلاحات اس وقت استعمال کرنا شروع کیں جب وہ خود نیب کے مقدمات کی زد میں آئے ہیں۔
بے شک انکے سیاسی بیانیہ سے انکے اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کا بے بدل قائد ہونے کا تصور ابھرا ہے جس سے انکی پارٹی کو آئندہ انتخابات میں سیاسی فائدہ پہنچ سکتا ہے تاہم یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی بیانیہ سے اپنی پارٹی کو حاصل ہونیوالی مقبولیت کو کیش کرانے کے بجائے اسکی راہ میں خود ہی حائل ہورہے ہیں۔ ابھی دو روز قبل تک انکی ذات کے حوالے سے نیب کے جاری کردہ ایک پریس ریلیز اور چیئرمین نیب کی جانب سے اسی پریس ریلیز کی بنیاد بننے والی خبر کے تناظر میں معاملہ کی انکوائری کا حکم دینے سے یکایک میاں نوازشریف کا سیاسی گراف آسمان کی بلندی کو چھوتا نظر آرہا تھا کہ اسی دوران انہوں نے ڈان لیکس والے صحافی کے ذریعے ملتان میں بطور خاص اپنے ایک متنازعہ انٹرویو کا اہتمام کراکے سارے کئے کرائے پر خود ہی پانی پھیر دیا۔ اس انٹرویو کے ذریعے انہوں نے معاملہ کی نزاکت کا احساس کئے بغیر یہ سوال اٹھا دیا کہ کیا ہمیں ایسے نان سٹیٹ ایکٹرز کو بھارت جانے کی اجازت دینی چاہیے تھی جنہوں نے ممبئی حملوں میں ڈیڑھ سو لوگوں کو ہلاک کیا اور ان عناصر کیخلاف پاکستان میں اب تک ٹرائل کیوں مکمل نہیں ہوسکا۔ انکی یہ بات درحقیقت ہمارے خلاف بھارت کی زبان درازی کو تقویت پہنچانے کے مترادف تھی کیونکہ بھارت یہی کیس ہمارے خلاف بنا کر بیٹھا ہے کہ پاکستان سے مقبوضہ کشمیر میں بھی دراندازی ہو رہی ہے اور اسکے بھجوائے گئے دہشت گرد بھارت کے اندر بھی دہشت گردی کی وارداتوں میں مصروف ہیں۔ بھارت کے اس الزام کو ہی ٹرمپ انتظامیہ نے ہمارے خلاف پابندیوں کا جواز بنانے کیلئے استعمال کیا۔
اس صورتحال میں مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی اپنے پارٹی قائد کے موقف کا دفاع کرنا مشکل نظرآرہاہے۔ اگرچہ وزیراعظم شاہد خاقان اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے یہ کہہ کر میاں نوازشریف کے بیان کے مضر اثرات زائل کرنے کی کوشش کی کہ یہ بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر اور توڑ موڑ شائع کیا گیا ہے تاہم اس بیان پر اپوزیشن اور دوسرے حلقوں کی جانب سے آنیوالے سخت ردعمل کے باعث مسلم لیگ (ن) کے قائدین کیلئے بھی معاملہ سنبھالنا مشکل ہوگیا ہے اور یوں محسوس ہورہا ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی طرح میاں نوازشریف کے معاملہ پر مسلم لیگ (ن) کے حقیقی کارکنوں کو بھی انکے بیان سے پارٹی کو پہنچنے والے سخت نقصان سے بچانا مشکل ہورہا ہے۔ بالخصوص اس تناظر میں کہ میاں نوا زشریف اور انکی صاحبزادی مریم نواز اس بیان پر بدستور ڈٹے ہوئے ہیں جس کے باعث میاں شہبازشریف کے حوالے سے ان کے خاندان میں بھی اختلافات کا تاثر اجاگر ہورہا ہے جس کا بہرحال مسلم لیگ (ن) کو ہی نقصان اٹھانا پڑیگا۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ممبئی حملوں کے حوالے سے ایسے انکشافات پہلی بار میاں نوازشریف کی جانب سے نہیں ہوئے بلکہ اس سے پہلے متعدد دوسری شخصیات بھی ایسے ہی بیانات جاری کرچکی ہیں۔ تام ملک کے تیسری بار منتخب ہونیوالے وزیراعظم سے یہ ہرگز توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ممبئی حملوں میں بھارت کے موقف کو تقویت پہنچانے کی غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرینگے۔
یہی وہ پس منظر ہے جس سے میاں نوازشریف کے انٹرویو کے بعد پورے ملک میں سخت تشویش کی فضا پیدا ہوئی اور مسلم لیگ (ن) ہی کی حکومت کے سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کو فوری طور پر اپنا بیان جاری کرکے ممبئی حملوں کے حوالے سے پاکستان کے موقف کی وضاحت اور بھارتی مکروفریب کو بے نقاب کرنا پڑا جبکہ اپوزیشن قائدین کو تو پوائنٹ سکورنگ کی سیاست کا یہ نادر موقع ہاتھ آگیا ہے۔ چنانچہ عمران خان اور تحریک انصاف کے دوسرے لیڈران ہی نہیں‘ پیپلزپارٹی کی قیادت بھی لٹھ لے کر میاں نوازشریف پر چڑھ دوڑی نظر آتی ہے۔
اس بیان سے عالمی سطح پر پاکستان کیلئے پیدا ہونیوالی پریشان کن صورتحال پر مقتدر حلقوں میں بھی تشویش پیدا ہوئی چنانچہ وزیراعظم کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانے کی تجویز پیش کی گئی اور گزشتہ روز اس اجلاس میں متفقہ طور پر میاں نوازشریف کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے ممبئی حملہ کیس کے حوالے سے وہی حقائق بیان کئے گئے جو گزشتہ روز چودھری نثار علی خاں اپنے بیان میں پیش کرچکے تھے۔ این ایس سی کی اس متفقہ کارروائی میں یقیناً وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور انکی کابینہ کے دو ارکان کا اتفاق رائے بھی شامل ہے۔ وزیراعظم نے اجلاس کے بعد سابق وزیراعظم میاں نوازشریف سے ملاقات کرکے انہیں انکے بیان کے تناظر میں این ایس سی کے دیگر شرکاءکی تشویش اور اس بیان کے ممکنہ مضمرات سے آگاہ کیا ہوگا تاہم یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ میاں نوازشریف نے گزشتہ روز نیب کورٹ میں پیشی کے بعد اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے یہ عندیہ بھی دے دیا ہے کہ وہ آئندہ بھی حق بات کرتے رہیں گے چاہے اسکے عوض انہیں کچھ بھی کیوں نہ سہنا پڑے اس لئے اب بادی النظر میں انکی پارٹی کے اندر انکے موقف کا دفاع کرنا مشکل ہو جائیگا۔ اگر تو میاں نوازشریف کی جانب سے بھی میاں شہباز شریف جیسی وضاحت آجاتی تو قومی سیاست میں انکے بیان کی بنیاد پر لگنے والی آگ کی حدت میں کچھ کمی ہوجاتی مگر انہوں نے اور انکی صاحبزادی مریم نواز نے انٹرویو میں ادا کئے گئے الفاظ پر قائم رہ کر معاملہ مزید خراب کردیاہے۔ چنانچہ اب تحریک انصاف کی جانب سے ان کیخلاف آئین کی دفعہ چھ کے تحت مقدمات کے اندراج کیلئے کراچی کے پولیس تھانوں میں درخواستیں دی جارہی ہیں تو پیپلزپارٹی کے پارلیمانی قائدین نویدقمر‘ شازیہ مری‘ یوسف تالپور اور میرغلام مصطفیٰ شاہ ان کیخلاف قومی اسمبلی میں تحریک التواءلے آئے ہیں۔ اسی طرح مقدمہ بازی کے عادی حضرات کو ان کیخلاف عدلیہ سے رجوع کرنے کا موقع بھی مل گیا ہے۔
اس صورتحال میں انتخابی عمل میں جانے کے مراحل کے آغاز ہی میں مسلم لیگ (ن) اور اسکی قیادت کیلئے سخت آزمائش پیدا ہوگئی ہے کیونکہ میاں نوازشریف کے بیان کے باعث اس وقت عوام میں بھی غم و غصہ کی کیفیت ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی تشویش اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہورہی ہے۔ گزشتہ روز ایک وفاقی وزیر ماروی میمن نے کھل کر میاں نوازشریف کے بیان کو تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ قومی سلامتی کے اجلاس میں شریک وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے دو وفاقی وزراءنے بھی میاں نوازشریف کے بیان کو متفقہ طور پر مسترد کرنے کے فیصلہ کی تائید کی جس سے مسلم لیگ (ن) کیلئے آئندہ کی سیاست میں پیدا ہونیوالی مشکل صورتحال کا واضح عندیہ مل رہا ہے۔
اندریں حالات اب بال میاں نوازشریف کی ہی کورٹ میں ہے کہ وہ معاملہ فہمی سے کام لے کر اپنی پارٹی کا سیاسی مستقبل تاریک ہونے سے بچاتے ہیں یا اپنے بیانیے پر ڈٹے رہ کر اپنی پارٹی کے آئندہ اقتدار کی راہیں مسدود کرتے ہیں۔ یہ یقیناً انکی سیاسی فہم و بصیرت کا امتحان ہے کیونکہ انکے سیاسی بیانیے کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے قائدین کیلئے ان کا دفاع کرنا مشکل ہوگا۔