بدھ، 22 شعبان المعظم، 1444ھ، 15 مارچ 2023ئ

موٹر سائیکلوں اور رکشوں کے لیے رعایتی نرخوں پر پٹرول فراہم کرنے کی افواہیں
”اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی“ خدا کرے یہ خبر سچ ثابت ہو اور مہنگائی کے پہاڑ تلے دبے غریبوں کو سانس لینے کا موقع ملے ورنہ ہمارے ہاں تو
مر جائے جو انسان تو بڑھ جاتی ہے قیمت
زندہ ہو تو جینے کی سزا دیتی ہے دنیا
اب افواہ اڑ رہی ہے۔ کوئی کہتا ہے حکومت کے زیر غور تجویز ہے کہ موٹر سائیکل اور رکشے والوں کو کیونکہ یہ عوام کی سستی سواری ہے، پٹرول رعایتی نرخوں پر فراہم کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ بہتر تو یہ ہے کہ حکومت فوری طور پر سڑکوں پر لگژری قیمتی اور بڑی گاڑیوں کے نکالنے پر پابندی لگا دے۔ جب تک صورتحال بہتر نہیں ہوتی خاص و عام حد سے حد 1800 سی سی کی گاڑیوں تک محدود رہیں اور سرکاری افسروں کو مفت پٹرول بجلی اور گیس و ٹیلی فون کی سہولت ختم کر دی جائے کیونکہ یہ سب سرکاری کام سے زیادہ اپنے ذاتی کام پر حکومتی رعایتیں استعمال کرتے ہیں۔ مزہ اڑاتے ہیں۔ چاہے پٹرول کی لام بندی کریں یا فروخت کی حد مقرر کی جائے۔ مگر عوامی ٹرانسپورٹ اور لوگوں کی سہولت کے لیے اسے رعایتی نرخوں پر فراہم کیا جائے تاکہ غریبوں کو فائدہ ہو اور وہ حکومت کو دعائیں دیں۔ ویسے بھی اس وقت بددعاﺅں کا پلڑا بھاری ہے اسے برابر کرنے کے لیے حکمرانوں کو دعائیں حاصل کرنا ضروری ہیں تاکہ کم از کم ترازو کے دونوں پلڑے برابر تو ہوں۔
٭٭٭٭٭
ورلڈ بنک نے سیلاب کے بعد ہیٹ ویو سے خبردار کر دیا
وطن عزیز گزشتہ کئی برسوں سے ہیٹ ویو کی وجہ سے سنگین مشکلات برداشت کر رہا ہے۔ اب تو ایک بار پھر ورلڈ بنک نے خبردار کر دیا ہے کہ سیلاب کے بعد اب ہیٹ ویو پاکستان میں تباہی مچانے کے لیے تیار ہے۔ ابھی مارچ کا مہینہ چل رہا ہے مگر کراچی اور سندھ کے کئی شہروں میں گرمی کی لہر نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ اگلے ماہ رمضان کا آغاز ہو رہا ہے‘ اس دوران پنجاب میں بھی گرمی کی یہ لہر اپنا جلوہ دکھائے گی۔ بجلی کی بندش، پانی کی قلت ، غیر معیاری خوراک طویل، دورانیے کے دن میں یہ سب مل کر عوام کا بھرکس نکال دیتے ہیں۔ گرمی کی شدت سے بچے اور بوڑھے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔ جسم میں پانی اور خوراک کی کمی ہو جاتی ہے۔ وبائی امراض جن میں یرقان، اسہال ، موسمی بخار شامل ہیں کی وجہ سے ہسپتال بھر جاتے ہیں جہاں پہلے ہی بیڈز اور ادویات کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کی قلت ہے۔ موسمی شدت اور بیماریوں سے حکومت کیسے نبردآزما ہو گی۔ ابھی وقت ہے چاروں صوبائی حکومتیں آنے والے مشکل وقت سے بچاﺅ کے لیے پیش بندی کر لیں۔ عوام بھی گرمی کی لہر سے بچاﺅ کے لیے حفاظتی اقدامات پر سختی سے عمل کریں۔ ہر سال سینکڑوں قیمتی جانیں اس نامہرباں موسم کی وجہ سے ضائع ہوتی ہیں۔ صحرائی علاقوں خاص کر تھر اور چولستان کے علاوہ اس لہر سے متاثرہ صوبوں میں محکمہ صحت کو الرٹ رکھا جائے۔ اوقات کار یعنی کام کاج کے دورانیے کو بھی موسم کے مطابق ڈھالا جائے تو نقصان کم سے کم ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی لاکھوں سیلاب متاثرین اس وقت کھلے آسمان تلے پڑے ہیں ،ان کی جانوں کو اس ہیٹ ویو سے زیادہ خطرات ہیں۔
٭٭٭٭٭
کینیڈا میں مولا جٹ کا گنڈاسہ 2 کروڑ روپے میں نیلام
کہتے ہیں زندہ ہاتھی لاکھ کا، مرا سوا لاکھ کا ہوتا ہے تو اس میں کوئی جھوٹ بھی نہیں۔ اب یہی دیکھ لیں پاکستان کی شہرہ آفاق فلم ”لیجنڈ آف مولا جٹ“ جو حقیقی فلم مولا جٹ سے کئی گنا زیادہ مقبول ہوئی۔ اس میں مولا جٹ کا خونخوار گنڈاسہ جو طاقت اور وحشت کی علامت بنا ہر جگہ دشمنوں کے لاشے بچھا دیتا تھا، کشتوں کے پشتے لگاتا نظر آتا تھا۔ ایک ہسپتال کے چیریٹی شو میں جو کینیڈا میں ہوا ، 2 کروڑ روپے میں نیلام ہوا۔ اب یہ رقم مریضوں کے علاج معالجہ پر خرچ ہو گی۔ یہ سب یورپ میں تو عام ہے کہ مشہور لوگوں اور اداکاروں کے زیر استعمال اشیاءنیلامی کے لیے پیش ہوتی ہیں۔ لوگ مہنگے داموں یہ چیزیں حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان میں لے دے کر بہت ہوا تو کرکٹرز کے بلے یا شرٹس امدادی پروگراموں میں نیلام ہوتی ہیں۔ مگر اداکاروں سے کوئی ایسی روایت نظر نہیں آتی کے ان کے زیر استعمال سامان یا اشیاءنیلام ہوئی ہوں۔ مگر مولا جٹ کے گنڈاسے نے تو ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔ یہ کسی اداکار کے زیر استعمال چیز نہیں تھی۔ ایک فلمی کردار کے ہاتھ میں پکڑا گنڈاسہ تھا۔ مولا جٹ فلم کی یہ خوبی رہی ہے کہ اس کا ہر کردار امر ہو گیا۔ نوری نت ہو یا دارونتنی سے لے کر اس بے جان گنڈاسے تک نے سلطان راہی ، مصطفی قریشی، انجمن کے بعد اب فواد خان، حمزہ عباسی، ماہرہ خان ، حمائمہ ملک کو بھی واقعی لیجنڈ بنا دیا مگر کینیڈا کے ایک امدادی پروگرام میں جس طرح اس فلم کے گنڈاسے نے بازی جیت لی وہ بے مثال ہے۔ ایک صاحب دل شخص نے نیلامی کے لیے پیش ہونے والا گنڈاسہ پاکستانی 2 کروڑ روپے میں خرید لیا جو اب تک ہماری فلم انڈسٹری کا ایک ریکارڈ ہی ہے۔
٭٭٭٭٭
بھارتی سیاستدان کی اذان کے حوالے سے ہرزہ سرائی۔ یہ آج نہیں تو کل بند ہو جائے گی
بھارت جیسے متعصب انتہا پسند ملک میں اگر مسلمان آج بھی سینہ ٹھونک کر اذان دے رہے ہیں تو یہ ان کی قوت ایمانی کا مظہر ہے۔ ورنہ کئی بدبخت تو کوشاں ہیں کہ وحدانیت کی یہ آواز بند کر دی جائے مگر بقول حضرت اقبال:
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ ....
اذان نہ پہلے کبھی کسی کے ظلم و جبر سے طاقت کے استعمال سے رکی ہے نہ کبھی رک سکتی ہے۔ چنگیز خان اور ہلاکو نے سکھوں اور مرہٹوں نے اپنی یلغار کے دوران مساجد کو نمازیوں سمیت نیست و نابود کر دیا مگر وہ بھی اذان کی رسم بلالی کو خاموش نہ کر سکے۔ مقررہ پانچ وقتوں میں تباہ و برباد مسلم شہروں اور دیہات میں ظلم و جبر کے باوجود توحید کا یہ نغمہ سرمدی اپنی ازلی آن بان اور شان کے ساتھ گونجتا رہا۔ بی جے پی کے اس احمق سیاستدان کی یہ خواہش بھی اس کی ناکام حسرتوں کی طرح اس کے ساتھ چتا میں جل کر خاک ہو جائے گی۔ اذان یونہی بھارت کے طول و عرض میں گونجتی رہے گی۔ اقبال نے کیا خوب کہا تھا:
دی اذانیں کبھی یورپ کے کلیساﺅں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراﺅں میں
شاید اس احمق سیاستدان کو معلوم نہیں کہ ایک ہزار سال سے مسلمان ہندوستان میں اذان دیتے آئے ہیں۔ دنیا کے گوشے گوشے میں یہ توحید و رسالت کی گواہی ہر آن گونجتی رہتی ہے۔ اسے مٹانے اور بند کرنے کی خواہش رکھنے والے خاک میں مل گئے، جل کر راکھ ہو گئے مگر یہ جاری تھی اور رہے گی۔ کسی میں اتنا دم نہیں کہ اسے روک سکے۔ بال ٹھاکرے اور مودی نے ہزاروں مسلمان مروائے وہ بھی اذان بند نہیں کرا سکے تو ایک تیسرے درجے کے سیاسی مداری کی کیا اوقات کہ وہ ایسا کرنے کا سوچ بھی سکے۔