حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ چار بہادر بیٹوں کے باپ تھے ،یہ چاروں شیر کی طرح بہادر تھے اورہر جنگ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب رہا کرتے تھے۔عمروبہت زیادہ لنگڑا کر چلتے تھے ،غزوہ احد درپیش ہوا تو انہوںنے اس میں شرکت کا ارادہ کیا ،بیٹوںنے کہا اللہ نے معذور کو رخصت دی ہے ،لہٰذا آپ شریک نہ ہوں۔یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کی میرے بیٹے مجھے جہاد میں جانے سے روک رہے ہیں ،جبکہ میری تمنا یہ ہے کہ میںجنت کی سرزمین کو اپنے لنگڑے پائوں سے روندوں ۔آپ نے فرمایا :اللہ نے تمہیں معذور قرار دیا ہے اورجہاد میں شمولیت تمہارے لیے ضروری نہیں ،انھوںنے اپنے بیٹوںسے کہا اگر تم مجھے نہ روکو تو تمہیں کیا مسئلہ ہے ۔ممکن ہے اللہ تعالیٰ مجھے شہادت کی نعمت سے نواز دے ،چنانچہ اجازت مل گئی جب وہ اس سفر پر روانہ ہونے لگے تو قبلہ رخ ہوکر اللہ کی بارگاہ میں یہ التجا کی ،اے اللہ! مجھے اپنے گھر والوںکی طرف نامراد کرکے واپس نہ کرنا ،ان کی دعا قبول ہوئی اور وہ مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے ۔
غزوئہ احد کے دن رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا کوئی ہے ،جو مجھے سعد بن ربیع کی خبر لا دے ۔ آیا کہ وہ زندہ ہیں یا جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں ۔حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ حکم بجالائوں گا۔ آپ نے ارشادفرمایا : اگر تم سعد بن ربیع کو زندہ پائو تو ان سے میرا سلام کہنا ،اوران سے یہ کہناکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )تم سے پوچھ رہے ہیں کہ تم کس حال میں ہو؟چنانچہ حضرت ابی بن کعب شہدائے اُحد کے اجساد کے درمیان گھوم پھر کر انہیں تلاش کرنے لگے ۔وہ فرماتے ہیں ایک مقام پر میں نے حضرت سعد کو زخموں سے چورپڑا پایا ،انہیں تلوار اور تیر کے تقریباً ستر زخم لگ چکے تھے۔تاہم ابھی تک ان میں زندگی کی کچھ رمق باقی تھی ۔میںنے انہیں حضور رحمت عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کا سلام اورپیغامِ محبت پہنچایا ،انہوںنے جواب میں کہا جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں میرا بھی سلامِ شوق پہنچانا اور میری طرف سے عرض کرنا کہ اللہ آپ کو ہماری طرف سے وہ بہترین چیز عطا فرمائے جو ایک امت کی طرف سے اس کے ایک نبی کو مل سکتی ہے۔نیز آپ کی خدمتِ عالیہ میں یہ بھی عرض کردینا کہ اگرچہ مجھے متعدد تیر لگ چکے تھے لیکن اس کے باوجود میں نے اپنے قاتل کو جہنم رسید کردیا تھا۔مزید براں یہ کہ میری قوم کو بھی میرا سلام کہنا اور انھیں اس بات کی تنبیہ کردینا کہ اگر خدا نخواستہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کردیا جاتا ہے اور ان میں سے کوئی ایک بھی زندہ رہے گا تو اللہ کے ہاں ان کا کوئی بھی عذر قابلِ قبول نہ ہوگا۔ اس پیغام کے ساتھ ہی وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے واپس آکر سارا ماجرا حضور اقدس میں عرض کیا ،اورحضرت سعد کا سلامِ شوق اور پیغامِ محبت آپ تک پہنچایا ۔
حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :’’اللہ رب العز ت ان پر رحم فرمائے انہوں نے زندگی میں بھی اللہ اوراس کے رسول کی خیر خواہی کا مظاہر ہ کیا اوردمِ آخریں بھی ‘‘۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024