علاقائی اور عالمی سلامتی کی خاطر بھارت کے جنونی ہاتھ روکنا عالمی قیادتوں کی ذمہ داری ہے
پاکستانی سفارتکاروں کو ہراساں کرنے کی بھارتی شرانگیزیاں اور یو این سیکرٹری جنرل کا پاک بھارت مذاکرات پر زور
بھارت میں پاکستانی سفارتکاروں اور ان کے بچوں کو ہراساں کرنے کے مزید دو سنگین واقعات رونما ہوئے ہیں۔ پاکستانی ہائی کمشن نے یہ معاملہ بھارتی وزارت خارجہ کے سامنے اٹھاتے ہوئے احتجاج ریکارڈ کرایا ہے جبکہ بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج کیا گیا، میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی وزارت خارجہ پاکستانی سفارتکاروں کو ہراساں کرنے میں ملوث اپنی خفیہ ایجنسیوں کے حکام کو لگام دینے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق نئی دہلی میں تعینات سینئر سفارتکار کی گاڑی کو ایک کار نے روکا اور گاڑی کو آگے نہیں جانے دیا۔ پھر راستہ روکنے والی گاڑی میں سے ایک شخص نے اتر کر سفارتکار کی تصاویر کھینچیں۔ دوسرے واقعہ میں پاکستانی سفارتکار کی گاڑی کو روک کر ان کے بچوں کو ہراساں کیا گیا، فرسٹ سیکرٹری کا پیچھا کیاگیا اور ہائی کمشن آفس کے ڈرائیور کو حبس بے جا میں رکھا گیا، اس حوالے سے گزشتہ روز بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کیا گیا اور ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل نے پاکستان کی طرف سے احتجاجی مراسلہ ان کے حوالے کیا اور باور کرایا کہ بھارت میں اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ سفارتکاروں کی حفاظت کر سکے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ویانا کنونشن کے تحت سفارتکاروں کا تحفظ بھارتی حکومت کی ذمہ داری ہے جبکہ بھارت سفارتکاروں کو تحفظ دینے میں ناکام رہا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ روز بھی پاکستان کے سفارتی اہلکاروں کے بچوں کو ہراساں کیا گیا اور ان کی گاڑی کو 40 منٹ تک روکے رکھا گیا۔
بھارت درحقیقت سرحدی کشیدگی بڑھانے اور سفارتی تعلقات کی سطح کم کرنے کے لئے پاکستان کے سفارتی عملے کو ہراساں کر رہا ہے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ بھارت شروع دن سے ہی پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور سلامتی کے درپے ہے جسے پاکستان کا آزاد وجود اس کی تشکیل کے وقت سے ہی برداشت نہیں ہوا کیونکہ پاکستان کی تشکیل سے ہندو لیڈران کے اکھنڈ بھارت کے خواب چکنا چور ہوئے ۔ انہوں نے تقسیم ہند کے وقت طوعاًو کرہاً پاکستان کی تشکیل تو قبول کر لی تھی مگر اس کے ساتھ ہی انہوں نے پاکستان کو کمزور کرنے کی منصوبہ بندی بھی کر لی۔ اس سازش کے تحت بھارتی لیڈروں نے تقسیم ہند کے فارمولہ کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا تاکہ کشمیر کے راستے سے پاکستان کو پانی کی فراہمی بند کرکے اس کا ناطقہ تنگ کیا جا سکے۔ اس مقصد کے تحت بھارتی حکومت نے کشمیر میں اپنی فوجیں داخل کرکے اس کے بڑے حصے پر اپنا تسلط جما لیا اور پھر کشمیر کو خود ہی متنازعہ بنا کر اس کے تصفیہ کے لئے اقوام متحدہ سے رجوع کر لیا، تاہم جب یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی مختلف قراردادوں کے ذریعے کشمیریوں کے استصواب کے حق کو تسلیم کیا اور بھارت کو مقبوضہ وادی میں رائے شماری کے اہتمام کی ہدائت کی تو بھارت اقوام متحدہ کی ان قراردادوں سے ہی منحرف ہو گیا اور اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ وادی کو اپنی ریاست کا درجہ دے دیا اور پھر اس پر اٹوٹ انگ کی گردان شروع کر دی۔ اگر اقوام عالم کا نمائندہ ادارہ اقوام متحدہ اسی وقت اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کرا کے کشمیریوں سے ان کے مستقبل کے تعین کے لئے رائے حاصل کر لیتا تو کشمیر کا تنازعہ کبھی گھمبیر صورت اختیار نہ کرتا۔ اس طرح اس خطہ میں پاکستان اور بھارت کی روائتی دشمنی کا بھی آغاز نہ ہوتا مگر بڑی طاقتوں کی کٹھ پتلی بنا یہ عالمی ادارہ کشمیر ایشو پر اپنی قراردادوں کی توقیر کرانے پر مکمل ناکام رہا جس سے بھارت کو پاکستان کی سلامتی کے خلاف سازشیں پروان چڑھانے کا مزید موقع ملا، جس نے صرف کشمیر پر اپنا مستقل تسلط جمایا بلکہ پاکستان پر تین جنگیں بھی مسلط کیں اور 71ء کی جنگ میں سانحہ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کرکے اسے دولخت بھی کر دیا۔
بھارتی لیڈران کو اس کے بعد بھی قرار نہ آیا اور وہ 1974ء میں ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرکے باقی ماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہو گئے۔ اگر پاکستان کے قائدین نے بھارت کے مقابل پاکستان کو ایٹمی قوت سے ہمکنار نہ کیا ہوتا تو بھارت کب کا اس ارضِ وطن پر شب خون مار کر اس کی سلامتی مٹانے کے مذموم ایجنڈے کی تکمیل کر چکا ہوتا ۔بے شک بھارت نے ہماری سلامتی کمزور کرنے کی بے شمار سازشیں کی ہیں اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیاں کرکے کشمیر سے پاکستان آنے والے دریائوں پر چھوٹے بڑے ڈیمز کے انبار لگا لئے ہیں جن کا مقصد پاکستان کو پانی کے قطرے قطرے سے محروم کرکے بھوکا پیاسا مارنا کا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کی ایٹمی صلاحیتوں کو بھانپ کر وہ آج تک ہم پر جنگی جارحیت مسلط کرنے کی جرات نہیں کر سکا تاہم اس کی سازشی ذہنیت پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشوں کے تانے بانے بنتی رہتی ہے۔
بھارت کی موجودہ مودی سرکار تو اس فن میں یکتا ہے جس نے پاکستان کی سلامتی پر کاری ضرب لگانا اپنے سازشی ایجنڈے کی پہلی ترجیحات میں شامل کر رکھا ہے۔ ہندو انتہا پسندوں کی نمائندہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں پاکستان کی سلامتی اور اس خطے کے امن و سکون کے حوالے سے کسی خیر کی توقع نہیں رکھی جا سکتی کیونکہ مودی اپنی جنونیت میں پاکستان کی سلامتی پر شب خون مارنے کی جلدی میں نظر آتے ہیں جنہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی بڑھانے کا بیڑہ اٹھا لیا تھا چنانچہ ان کے اقتدار کے چار سالوں میں کنٹرول لائن پر ایک دن بھی امن و سکون کے ساتھ نہیں گزر سکا اور بھارتی فوجوں نے کنٹرول لائن پر پاکستان کی چیک پوسٹوں اور ملحقہ شہری آبادیوں پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کرنا روزانہ کا معمول بنا لیا ہے۔ مودی سرکار نے صرف اس پر ہی اکتفا نہیں کیا، پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور اور عدم استحکام سے دوچار کرنے کا وہ کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ شومئی قسمت اب امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ بھی مودی سرکار کی گاڑھی چھن رہی ہے کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی اپنی انتہا پسندانہ سوچ کے باعث مسلم دنیا کے درپے ہیں اور اس حوالے سے انہوں نے پاکستان کو اپنے ہدف پر رکھا ہوا ہے چنانچہ مودی اور ٹرمپ کی مسلم دشمنی پر مبنی مشترکہ سوچ نے ٹرمپ مودی گٹھ جوڑ کی راہ نکالی جس سے پاکستان کی سلامتی کے خلاف مودی سرکار کے حوصلے مزید بلند ہو گئے۔
ٹرمپ انتظامیہ کی آشیرباد کے تحت ہی اب مودی سرکار پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی فکر میں غلطاں نظر آتی ہے جس کے لئے حیلے بہانے سے پاکستان کو مشتعل کرکے اس کی جوابی کارروائیوں کی صورت میں اس پر جنگ مسلط کرنے کا جواز نکالنا چاہتی ہے۔ پاکستانی سفارتکاروں کو بلاجواز ہراساں کرنا بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے جو گزشتہ سال سے جاری ہے جبکہ بھارتی ہائی کمشن میں سفارتکاروں کے بھیس میں جاسوس اور دہشت گرد تعینات کرکے ان کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی گھنائونی سازشیں کی جا رہی ہیں جو بھارتی جاسوس دہشت گرد کلبھوشن یادیو کی گرفتاری سے بے نقاب بھی ہو چکی ہیں چنانچہ آج پوری دنیا ان بھارتی سازشوں سے آگاہ ہے۔ اگر عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں نے حقائق کا ادراک نہ کیا اور بھارت کی شیطانی سوچ اور جنونی منصوبہ بندی کے آگے بند نہ باندھا تو وہ دن دور نہیں جب علاقائی اور عالمی امن و سلامتی بھارتی جنونیت کی بھینٹ چڑھ کر اس کرۂ ارض کی تباہی کی نوبت لے آئے گی۔ اس کیلئے بنیادی کردار اقوام متحدہ نے ادا کرنا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کرائے۔
اس کے برعکس اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتو نیو گریٹس آج کنٹرول لائن پر کشیدگی کا نوٹس لیتے ہوئے پاکستان اور بھارت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ مذاکرات کے ذریعے اپنے مسائل حل کریں، انہیں یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ پاکستان نے مذاکرات سے کبھی انکار نہیں کیا اور وہ کشیدہ ترین حالات میں بھی بھارت کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کرتا رہا ہے جبکہ بھارت اس کے برعکس مذاکرات کی کوئی بیل منڈھے چڑھنے ہی نہیں دیتا اور اب تک کسی بھی سطح کے مذاکرات کی ہر میز اس نے ہی رعونت کے ساتھ الٹائی ہے۔ اب تو مودی سرکار پاکستان سے ملحقہ آزاد کشمیر اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات پر بھی نظریں گاڑے بیٹھی ہے اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج متعدد مواقع پر یہ بڑ مار چکی ہیں کہ ہم نے یہ علاقے پاکستان کے قبضے سے آزاد کرانے ہیں۔ بھارتی آرمی چیف تو پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کیلئے بے تاب نظر آتے ہیں۔ اس لئے بھارتی جنونیت علاقائی ہی نہیں عالمی امن و سلامتی کیلئے بھی خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے۔ اگر بھارت اپنی جارحانہ کا رروائیوں سے باز نہ آیا تو اپنی سلامتی اور خود مختاری کے تحفظ کیلئے پاکستان کے پاس جو آپشن موجود ہے اسے بروے کار لانے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ کار نہیں رہے گا۔ اس صورتحال میں اقوام متحدہ اور دوسری عالمی قیادتوں کو ہی عالمی تباہی کی نوبت لانے کیلئے تیار بھارتی ہاتھ روکنے ہیں۔ یو این سیکرٹری جنرل کو بہر صورت یو این قراردادوں پر عمل درآمد کرانا ہے۔ اگر بھارت کشمیریوں کو استصواب کا حق دینے کی راہ پر آ گیا تو پاکستان بھارت تنازعات خود ہی ختم ہو جائیں گے۔