سپیکر قومی اسمبلی کا واک آئوٹ پارلیمانی تاریخ کا افسوسناک واقعہ
سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق ،وفاقی وزیر داخلہ، سیکرٹری داخلہ اور وزارت داخلہ کے دیگر عہدیداروں کی ایوان میں عدم حاضری پر احتجاجاً واک آئوٹ کر گئے۔ سپیکر کے ساتھ تحریک انصاف کے ارکان بھی ایوان سے نکل گئے۔ سپیکر سردار ایاز صادق نے واضح کیا کہ جب تک وزیراعظم وزراء اور وزارتوں کے حکام کی ایوان میں حاضری کی تحریری یقین دہانی نہیں کراتے ایوان سے واک آئوٹ جاری رہے گا۔
قومی اسمبلی کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ سپیکر کو اس غیرمعمولی اقدام پر مجبور ہونا پڑا اور اس میں وہ بڑی حدتک حق بجانب بھی ہیں۔ پارلیمنٹ کی کارروائی میں وقفہ سوالات کو غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔ سوال کا تعلق سوال کرنے والے رکن اسمبلی کی اپنی ذات سے ہی نہیں بلکہ اکثر اوقات قومی اہمیت کے حامل معاملات سے بھی ہوتا ہے۔ عموماً ایسے سوالات ذرائع ابلاغ میں بھی شائع ہو جاتے ہیں جس سے سوال پوچھنے والے کو ہی نہیں عوام کو بھی جواب جاننے سے دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے۔ ترقی یافتہ جمہوری معاشروں میں ایوان میں پوچھے گئے سوال پر متعلقہ محکمے میں غیراعلانیہ ہنگامی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ جواب سو فیصد درست ہو، غلط جواب کی صورت میں حکومت کی بہت سبکی ہوتی ہے۔ بعض اوقات متعلقہ وزیر کو مستعفی ہونا پڑ جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں متعلقہ وزیر اور اس کے محکمے کے اہلکار غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ سپیکر کا اس بنا پر ایوان چھوڑ دینا معمولی بات نہیں۔ وزیراعظم کو اس کا سختی سے نوٹس لینا چاہئے اور سپیکر کو تحریری یقین دلانا چاہئے کہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔ وزراء اور حکومت کو کم از کم وقت کی نزاکت کا ہی احساس کرنا چاہئے۔ اس وقت اس قسم کی لاپروائی اور غیرسنجیدگی حکومت کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے۔ ہو سکتا ہے کہ سپیکر بے بس ہو کر انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوئے ہوں لیکن یوں مترشح ہوتا ہے کہ انہوں نے ایوان کا ڈسپلن قائم کرنے کی خاطر وہ اختیارات بھی استعمال نہیں کئے جو انہیں آئین کے تحت حاصل ہیں۔ ایوان سے سپیکر کے واک آئوٹ سے حکومت کے کمزور ہونے کا تاثر بھی اجاگر ہوا ہے۔ انہیں چاہئے کہ اپنی اتھارٹی استعمال کریں اور اس طرح کریں کہ حکومتی اور اپوزیشن ارکان اسمبلی ہی نہیں وزراء اور سرکاری اہلکار جن کی کسی وجہ سے حاضری مطلوب ہو وقت سے پہلے ایوان کے دروازے پر کھڑے ہوں اور اختتام تک اجلاس میں موجود رہیں، جسے بھی جانا ہو سپیکر کی اجازت سے جائے۔ ویسے اس مسئلے کا اصل حل تو یہی ہے کہ وزیراعظم خود ایوان میں موجود رہنا شروع کر دیں ۔پھر دیکھتے ہیں پیچھے رہنے کی کون جرأت کرتا ہے!