سورج پر تھوکنے سے سورج کی حیثیت اور عظمت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ اتوار 11 مارچ کی صبح لاہور کے معروف مدرسے جامعہ نعیمیہ میں ایک قابل مذمت واقعہ پیش آیا جب نواز شریف کی جانب جوتا پھینکا گیا۔ اس طرح کا خیال ایک بیہودہ اور بدبودار دماغ میں ہی آ سکتا ہے۔ نواز شریف پاکستان کے سب سے مقبول رہنما ہیں۔ یہ نِری جہالت ہے کہ اتنے بڑے لیڈر کی تضحیک کرنے کی کوشش کی جائے۔
نواز شریف ایک تقریب میں شرکت کے لئے خود جامعہ نعیمیہ تشریف لے گئے تھے۔ جامعہ نعیمیہ سے شریف فیملی کا پرانا تعلق ہے۔ نواز شریف کے والد محمد شریف نے جامعہ نعیمیہ کی خدمت کی ہے اور وہ مولانا محمد حسین نعیمی کی تعاون کی ہر پیشکش میں شریک ہوتے تھے۔ جامعہ نعیمیہ سے ہی نواز شریف اور ان کے بھائیوں نے بچپن سے قرآن کی تعلیم حاصل کی ہے۔ ہر طرح کی مذہبی رہنمائی کے لئے محمد شریف مرحوم‘ جامعہ کے مہتمم محمد حسین نعیمی مرحوم سے رجوع کرتے تھے۔ جامعہ نعیمیہ کے تعاون سے ہی اتفاق مسجد کے لئے پیش امام کے لئے طاہر القادری کی خدمات حاصل کی گئی تھیں جو آج بڑے لیڈر ہیں۔ جامعہ نعیمیہ میں آنا جانا شریف خاندان اور خود جناب نواز شریف کے لئے عام بات ہے۔
ہم حیدر آباد سندھ میں رہتے ہیں برسوں پہلے اسلامی جمعیت طلبہ کا ایک سالانہ اجتماع جامعہ نعیمیہ میں منعقد ہوا تھا۔ ہم سٹیج سیکرٹری تھے اور نوابزادہ نصراللہ خان مہمان خصوصی تھے۔ بچپن کی یادیں کون بھولتا ہے۔
پاکستان کے لئے مذہبی جنونیت بھی ایک مسئلہ ہے۔ یہ شریعت‘ مذہب اور اخلاق کے تابع نہیں بلکہ جہالت کا نمونہ ہوتی ہے اور کوئی بھی بدتمیز شخص بے ہودگی کے ذریعے خود کو نمایاں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس شخص کا جرم قابل سزا ہے۔ پاکستان میں اسلام کا نام لے کر اب ہر طرح کا واقعہ سرزد کرنا آسان ہے۔ ہمیں ان مکروہ رویوں کی روک تھام کرنی ہو گی۔
11 مارچ کو ہی مریم نواز نے راولپنڈی میں سوشل میڈیا کنونشن سے خطاب کیا۔ عوام کا سیلابِ رواں اور جمِ غفیر تھا جو مریم نواز کے استقبال اور خطاب سننے کے لئے جمع تھا۔ مریم نواز اب بہت اچھی تقریر کرتی ہیں اور یہ ان کی خوش نصیبی ہے کہ وہ اتنی ہی مقبول ہیں‘ جتنے نواز شریف ہیں۔ حسب توقع مریم نواز کے فنکشن میں چودھری نثار علی موجود نہیں تھے‘ جن کا ارشاد ہے کہ وہ چھوٹوں کو میڈم کہنے سے معذرت چاہتے ہیں۔ بڑے ناراض بھی ہو جاتے ہیں۔ چھوٹوں کا کام ہے انہیں راضی کرنا۔ ایک خیال یہ ہے کہ جناب پرویز رشید کی وجہ سے بھی فاصلوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جلسوں میں جناب پرویز رشید‘ مریم صاحبہ کے برابر تشریف فرما ہو جاتے ہیں حالانکہ اس جگہ مقامی عہدیداروں کو تشریف رکھنی چاہئے۔ یہ تاثر عام ہوا ہے کہ پرویز رشید‘ محترمہ مریم نواز کی سیاسی تربیت فرما رہے ہیں۔
ہم نے روزنامہ نوائے وقت میں ہی آرٹیکل لکھا تھا‘ 2013ء کے الیکشن سے پہلے مریم نواز‘ مستقبل کی بے نظیر ہیں۔ یہ مریم نواز کی اپنی اہلیت‘ ذہانت‘ صلاحیت اور قابلیت ہے‘ جس کے ذریعے انہوں نے اتنا بڑا مقام حاصل کیا ہے‘ یہ کسی Individual کا کارنامہ نہیں ہے اور نہ مریم نواز‘ اس کی مرہون منت ہیں۔ نوک پلک درست کرنا اور بات ہے اور پرویز رشید‘ مریم نواز کی ٹیم کے ایک رکن ہو سکتے ہیں۔ مریم نواز اپنے سے بڑے ہر شخص کی عزت کرتی ہیں‘ یہی ان کی تربیت اور تہذیب ہے۔
کوشش کی جائے کہ شہباز شریف کے جلسوں میں بھی مریم نواز اہم مقرر کے طور پر شریک ہوں اور تو اور لودھراں میں نواز شریف اور شہباز شریف ساتھ تھے۔ حمزہ بھی تھے اور مریم نواز بھی۔ ان موجودگیوںکی وجہ سے مریم نواز کی تقریر نہ ہو سکی۔
راولپنڈی میں مریم نواز خوب گرجیں، برسیں، اب وہ Confidence سے کھڑی ہوتی ہیں۔ چھوٹے جملوں میں مجمع کے موڈ کے مطابق گفتگو کرتی ہیں۔ پنڈی کے MPAs, MNAs مریم کی تقریر سے خوش ہوئے۔ ان کی محنت وصول ہو گئی۔
بے شک عام دنوں میں Social Media اہم کردار ادا کرتا ہے مگر اس کا Impact محدود طبقے کے لئے ہے۔ الیکشن کے ماحول میں TV اخبارات‘ تحریر و تقریر‘ جلسے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ راولپنڈی میں مریم نواز کی جذباتی تقریر تھی۔ صاف دکھائی دے رہا تھا اپنے والد محترم پر جوتا پھینکنے کے واقعے کا ان پر برا اثر ہوا ہے مگر پھر وہ سنبھل گئیں۔
مریم نواز نے دلیرانہ انداز میں کہا کہ گیدڑوںکے ڈر سے شیروں کے قافلے نہیں رکتے۔ اتوار کو فوارہ چوک راولپنڈی سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ پنڈی کے شیرو! آپ کا لیڈر نواز شریف بہادر آدمی ہے۔ شجاع ہے اور شیر ہے۔ مریم نواز نے بلٹ پروف شیشہ ہٹا دیا اور کہا کہ آئو۔ ہمت ہے تو آئو۔ مریم نواز کی جذباتی تقریر سے مجمع میں جوش پیدا ہو گیا۔ جلسے میں کوئی ترازو لہرا رہا تھا۔ مریم نواز نے ترازو منگا کر ہاتھ میں لی اور کہا نوازشریف سے بے انصافی ہوئی ہے۔ مریم نواز نے طویل خطاب کیا اور عوام کو گرمایا۔
عوام میں ایک بیانیہ مقبول ہو رہا ہے۔ سیاستدان کی بھی مجبوری ہوتی ہے۔ جناب نواز شریف کے ساتھ تضحیک آمیز واقعے کے بعد ضروری ہو گیا ہے کہ تمام سیاستدانوں کی سکیورٹی خاص طور پر اگلے حصے میں بڑھائی جائے۔ صاف ظاہر ہو گیا ہے کہ اس ملک میں ’’پاگلوں‘‘ کی کمی نہیں ہے۔ ہم اپنے قیمتی لیڈروں کو چند پاگلوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے!۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024