اسی ملک میں جہالت کا راج ہے یہ بات آج کل وہ جہلا کہہ رہے ہیں جو خود کو لبرل اور سیکولر کہتے ہیں۔ یہ ان کی فرسٹریشن اور بد نصیبی کی انتہاء ہے کہ ان کی پاکستان میں دال نہیں گلتی کبھی وہ مذہب پر حملہ آور ہوتے ہیں اور کبھی فوج پر۔ کبھی مذہبی منافرت پھیلانے کے ایجنڈا پر کام کرتے ہیں اور کہیں علاقائی تفاوت کو ہوا دیتے ہیں۔ کبھی انسانی حقوق کی آڑ میں اپنی بدباطنی کو چھپانے میں ناکام ہوتے ہیں تو کبھی دانشوری اور بقراطیت کے پردے میں انکے چہروں پر مایوسی و گمراہی بدکرداری اور بدنیتی کے سارے دھبے نمایاں ہو کر ان کے چہروں کی اصلیت ظاہر کرتے ہیں کہ …؎
بہر رنگ کہ خواہی جامہ می پوش
بن انداز قدت را می شناسم
تو یہ بدبخت بھی جس روپ اور بہروپ میں پاکستان کی نظریاتی، سیاسی، مذہبی، عسکری اور علمی سرحدوں پر حملہ آور ہوتے ہیں یہ خود کو چھپا نہیں سکتے ان کی بدباطنی نمایاں ہے ہر محب وطن پاکستانی ان کی پہچان کر چکا ہے۔ اگر اہل وطن پوری طرح نہیں پہچان سکے تو ان بدنصیبوں کی کو اس نوع کی کارروائیاں کرنا اور اسی قسم کے ایشو کھڑے کرنا مجبوری ہے یہ اس کیلئے تنخواہ وصول کرتے ہیں۔ فنڈز لیتے ہیں وطن عزیز میں افراتفری پھیلانے، فساد پھیلانے اور بعض صورتوں میں مایوسی پھیلانے کیلئے تنخواہ یہ جتنی دیدہ دلیری دکھاتے ہیں اتنے بلکہ اس سے زیادہ بزدل ہیں۔ جس ملک کا کھاتے ہیں جہاں رہتے ہیں اس کیخلاف چند ٹکوں یا ڈالروں کی عوض کام کرتے ہیں۔ انکی ساری دانش وطن دشمنی اور مذہب دشمنی میں خرچ ہو جاتی ہے انکے بڑے یہ کام کرتے کرتے مر کھپ گئے یہ بھی مایوس و نامراد ہو کر نیست و نابود ہو جائیں گے۔
الزام تراشی، بہتان بازی اورسیدھی سادی بات کو متنازعہ بنا کر پیش کرنا خود کو حریت فکر کا ماما بنا کر پیش کرنا ان کو مسلسل اغیار کی غلامی میں رہنے اور وطن دشمنی کی قیمت وصول کرنے کیلئے بنیادی وصف شمار ہوتا ہے۔ دولت کی حرص اور ضمیر فروشی میں انکی ہوس پرستی اس حد تک ان پر غالب آ چکی ہے کہ ہر خیر کی خبر ان پر ایٹم بم بن کر گرتی ہے۔ ہر ایمان افروز واقعہ ان کیلئے موت بن جاتا ہے یہ معاملات کو انٹرنیشنل بنانے کی جدوجہد میں اس لئے بعض اوقات کامیاب ہو جاتے ہیں کہ جہاں سے انکی فنڈنگ ہوتی ہے اور جن کی یہ غلامی میں سرتا پا جکڑے ہیں وہ کسی ایشو کو انٹرنیشنل بنانے میں ان کی ہر طرح سے مدد کرتے ہیں۔ آجکل یہ بدبخت اس اسائنمنٹ پر کام کر رہے ہیں جس سے انکی دنیا اور آخرت دونوں تباہ ہو چکی ہیں۔ تحفظ ناموس رسالت مسلمانوں کے ایمان کی بنیادی ضرورت ہے انسانی حقوق کے نام پر فساد پھیلانے والے گروہ کی سربراہ اور اسکے سارے چیلے اتنے کوڑھ مغز ہیں کہ جن کے سبب انسان کو انسان بننے کا شرف حاصل ہوا ہے جو انسانیت کیلئے ہی نہیں ہر مخلوق کیلئے رحمۃ اللعالمینؐ ہیں انکے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے وقت انکے انسانی حقوق کے تحفظ کے سارے دعوے خاک میں مل جاتے ہیں۔ یہ اپنی ہی باتوں اور اپنے ہی اعلان کردہ مقاصد کی نفی کرتے ہیں۔ ایک ایسی بے کار ایکسرسائز جس کا ان کو نقصان ہی نقصان ہے کیونکہ اس کائنات کے خالق نے ناموس رسالتؐ کے تحفظ کی ذمہ داری کسی مخلوق پر نہیں ڈالی نہ انسانوں پر نہ مسلمانوں پر خود یہ ذمہ داری نبھا رہا ہے اپنے حبیبؐ پر درود بھیج کر۔ فرشتے بھی درود بھیج رہے ہیں اور اہل ایمان کو بھی یہ سعادت دی کہ وہ بھی آنحضرتؐ پر درود بھیجیں یہاں ایک بہت ہی باریک نقطہ بہت کم مسلمانوں اور اہل ایمان کی توجہ کا مرکز بن سکا اور وہ درود جو نبی کریمؐ نے تعلیم فرمایا جس میں مومن اپنے خالق رب العالمین سے درخواست کرتے ہیں کہ ہماری طرف سے بھی حضور اکرمؐ کی شان اقدس میں درود کا تحفہ بھیجیں۔ یعنی اللہ کے حبیبؐ نے بغیر اتنی بڑی سچائی کو کھولے کہ انکی ذات اقدس پر مومن براہ راست درود نہیں بھیج سکتے یہ انکے مقام ارفع کا تقاضا ہے کہ جس نے درود بھیجنا ہے وہ اپنے رب سے التجا کرے کہ انکی طرف سے درود بھیج دیا جائے۔ درود صرف اللہ ہی بھیجے گا جسے اپنے پیارے حبیبؐ کے احترام اور ناموس کا اس قدر احساس ہے تو اے اہل ایمان یہ ان بدبختوں کی غلیظ مہم پر جو سوشل میڈیا پر شروع کی گئی ہے آپ کے ردعمل سے اپنی موت آپ مر گئی ہے یہ صرف آپ کے ایمان کا امتحان ہے۔
اہل ایمان کیلئے آپؐ سے محبت کا معیار خود نبی کریمؐ کی اس حدیث میں تعلیم فرما دیا گیا ہے ’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میری ذات یعنی پیغمبر اسلامؐ کے ساتھ اپنے والدین‘ اپنی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبت نہ کرے۔ اس حدیث کی روح سے اپنے ایمان کی حفاظت کرنا ہم سب اُمتیوں پر واجب بھی ہے اور فرض بھی۔ بالکل اس ایمان کے ساتھ کہ ناموس رسالتؐ کی حفاظت اللہ نے اپنے ذمہ لی ہے۔
اس بدبخت ٹولے کا علاج تو قانون میں موجود ہے۔ اس پر پورے ٹولے کو قانون کے مطابق سزا مل جانی چاہئے۔ اس سلسلہ میں حکومت کا تساہل‘ کمزوری‘ اغماض‘ غفلت یا نام نہاد فراخدلی اس حکومت کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔حکومت وقت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ فی الفور ان کاغذی بقراطوں کو قانون کی گرفت میں لے۔ سینٹ میں مسلم لیگ قائداعظم کے سینیٹر کامل علی آغا کی اس سلسلہ میں قرارداد متفقہ طورپر منظور ہو چکی ہے۔ اب مذہب اور نظریہ پر جمہوریت کی مہر لگوائے بغیر کوئی قدم اٹھانے سے گریز کرنیوالوں کیلئے حجت بھی پوری ہو گئی ہے۔ پنجاب اسمبلی سمیت باقی اسمبلیاں بھی اس ضمن میں اپنی جمہوری ذمہ داری پوری کرکے اپنے ایمان کی آزمائش میں سرفراز ہو رہی ہیں یا ہو سکتی ہیں۔اس بدبخت ٹولے نے اعلیٰ عدلیہ کے اس جج پر بھی رکیک حملے شروع کر دیئے ہیں جس نے اپنے فیصلے میں سوشل میڈیا کی بدلگامی پر اسے بند کر دینے کی بات کی ہے۔ یہ بدبخت نہیں جانتے کہ تحفظ ناموس رسالت کے حوالے سے اہل ایمان ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کے کسی فیصلے کا انتظار نہیں کرتے 1954ء کی تحریک تحفظ نبوت کے موقع پر تو جسٹس شوکت عزیز صدیقی شاید پیدا بھی نہ ہوئے ہوں اسلئے ان پر رکیک حملوں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔آخر میں مجھے قادیانی لابی اور انسانی حقوق کے تحفظ کی ایکسپلائٹیشن کرنیوالے اسکے جملہ ارکان کو انکی ہی ایک لیڈر عاصمہ جہانگیر کی یہ بات خود بھی پڑھنے‘ خود بھی سننے اور خود بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ تو ایشو ہی نہیں۔ یہ نان ایشوہے۔ تو محترمہ عاصمہ جہانگیر یہی تو ہم کہتے ہیںنان ایشوکو ایشو نہ بنائو۔ یہ ایشو نہیں۔ یہ ایشو ہو نہیں سکتا جس رب نے بہت جلد حساب لینے کا اعلان کیا ہے وہ اسے ایشو نہیں بننے دیتا۔ اہل وطن کیلئے بالخصوص اور دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے بالعموم علامہ اقبال کا وہی شعر …؎
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
یہ صرف شعر نہیں‘ ایمان کا حصہ ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38