بدھ، 15 ذیقعد 1443ھ، 15 جون 2022 ء
وزیر خارجہ بلاول ایران کے دورے پر روانہ
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری آج کل ایران کے دورے پر ہیں۔ ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات ہمیشہ دوستانہ برادرانہ رہے ہیں جنہیں ہم مثالی کہہ سکتے ہیں۔ درمیان میں امریکہ کے ساتھ ایران کے تنازعات کے سبب کبھی اونچ نیچ ہوتی رہی۔ مگر اس کے باوجود تعلقات اچھے ہی رہے۔ پیپلز پارٹی کے پچھلے دور حکومت میں جب آصف علی زرداری صدر تھے انہوں نے ایران کے ساتھ گیس کے حصول کیلئے معاہدہ کیا۔ جس کے تحت ایران نے اپنے حصے کا کام مکمل کیا اور بلوچستان کی سرحد تک گیس لائن بچھا دی۔ پاکستان میں بھی کچھ کام ہوا۔ بعدازاں امریکہ نے ایران پر پابندیاں لگائیں تو یہ منصوبہ بھی ادھورا رہ گیا۔ حالانکہ یہ ایک اہم منصوبہ تھا جس پر ہمیں کام کرنے کی اشد ضرورت تھی۔ اگر یہ منصوبہ آج بھی جلد مکمل ہو تو ہم گیس کی قلت پر بڑی حد تک قابو پا سکتے ہیں۔ بلاول صاحب اس وقت ایران میں ہیں تو وہ سیاسی دائو پیچ لڑا کر ایران سے گیس کی فراہمی کا یہ کام مکمل کرا لیں امریکہ کو بھی بعدازاں رام کر لیں تو یہ ان کی ملک کیلئے بہت بڑی خدمت ہو گی جس پر عوام انہیں تادیر یاد رکھیں گے۔ اور کچھ نہیں تو اسے اپنے والد کے ہاتھ کا لگایا پودا سمجھ کر اس کو تندرست و توانا درخت بنا دیں۔ ایران ارزاں گیس کے ساتھ بجلی بھی فراہم کرنے کو تیار ہے تو پھر دیر کیسی۔ یہ اب بلاول کی سیاسی ذہانت کا امتحان ہے ۔خدا کرے کوئی اچھی پیش رفت سامنے آئے اور ہم ایران سے سستا تیل، بجلی اور گیس حاصل کر سکیں۔
٭٭٭٭
پی ٹی آئی کے سبطین خان پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف مقرر
اب معلوم نہیں محمود الرشید کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے یا اسلم اقبال کے ساتھ مگر جس کے ساتھ بھی ہاتھ ہوا بہت برا ہوا۔ شاید اسی لیے کہتے ہیں
کبھی ہم نے کسی کو کاٹا کبھی تم نے کسی کو کاٹا
یہ ’’سیاست‘‘ میں سودے بازی تماشہ ہے تماشہ
یہ فیصلہ کس کے حکم پر ہوا یہ تحریک انصاف والے جانتے ہوں گے مگر جنہوں نے پوری ایمانداری سے قائد حزب اختلاف بننے کی سوشل میڈیا پر مہم چلائی یا اندرون خانہ خود کو قائد حزب اختلاف قرار دے کر حمایت کے حصول کے جتن کئے۔ ان کے تو دلوں پر سبطین خان کا نام بجلی بن کر گرا ہو گا۔ ان کے تو دل کے ارمان آنسو میں بہہ گئے ہوں گے۔ کئی ایک تو ’’میں کہاں تک کروں ثابت کہ وفا ہے مجھ میں‘‘ کے مصداق دل برداشتہ بھی ہو سکتے ہیں۔ مگر کیا کریں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور ہمارے سیاسی پارٹی رہنمائوں کی آنکھوں میں کھرا کھوٹا پہنچانے کی صلاحیت بہت کم ہوتی ہے۔ زیادہ تر لوگوں کی مالی قدر و قیمت اور جی حضوری کے علاوہ پارٹی کو فنڈز کی فراہمی کے لحاظ سے اہمیت دی جاتی ہے۔ یوں انہیں ہی اہم عہدے دئیے جاتے ہیں۔ یہ عیب سب جماعتوں میں ہے اور اس سے کوئی سیاسی پارٹی مبرا نہیں۔ قائد حزب اختلاف ہو یا وزیر و مشیر۔ یہ بننے کیلئے مالدار ، جی حضور اور فنڈز دینے والے ہی بامراد ہوتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
آبادی میں توازن کی بات غیر شرعی نہیں۔ حافظ طاہر اشرفی
چیئرمین علما کونسل حافظ طاہر اشرفی بھی اپنی ذات میں ایک مکمل انجمن ہیں۔ جہاں بھی جاتے ہیں ایک دبستان کھل جاتا ہے۔ ان کے ناقدین بھی بہت ہیں اور چاہنے والے بھی۔ مگر اس کے باوجود ان میں یہ ایک خوبی ہے کہ وہ ہر حکومت کے منظور نظر بن جاتے ہیں۔ پاکستان میں جو قادرالکلام عربی دان ہیں تو ان میں طاہر اشرفی کو اولیت حاصل ہے۔ انہیں اس خوبی کے سبب ہمیشہ مشیر بنایا جاتا ہے۔ کیونکہ ہمارے عربوں کے ساتھ ہمیشہ اچھے تعلقات رہے ہیں اور عربی بولنے والا ان تعلقات میں مزید گرمجوشی پیدا کرتا ہے۔ بہرحال انہوں نے بچوں کی پیدائش کے حوالے سے جو شرعی نکتہ بیان کیا ہے وہ واقعی قابل توجہ ہے۔ بدقسمتی سے ہماری شرح افزائش جانوروں سے بھی زیادہ ہے جس کی وجہ سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ آبادیاں بڑھ رہی ہیں۔ زرعی اراضی کم ہو رہی ہے۔ موسمی تغیر کے باعث پیداوار کم ہو رہی ہے کھانے والے زیادہ خوراک کم اور کمانے والے بھی کم ہیں تو ان حالات میں جو بیمار کمزور جاہل معاشرہ وجود میں آئے گا وہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ صحت افراد کہاں ہوں گے اس لیے علما اور ماہرین آبادی اس بات پر عوام کی توجہ دلا رہے ہیں کہ آبادی میں توازن غیر اسلامی نہیں۔ ایک لاغر جاہل بیمار معاشرے کی بجائے ایک صحت مند مسلم معاشرہ دنیاوی حوادث اور معاملات سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے اس لیے صرف اتنے بچے پیدا کریں جن کو اچھی تعلیم و تربیت صحت اور خوراک ہم مہیا کر سکیں ورنہ ہم ایک ترقی یافتہ قوم نہیں بن پائیں گے۔
٭٭٭٭
لمپی وائرس کا حملہ ،عید قرباں پر جانور مہنگے ہونے کا خطرہ
پہلے بھی ہر عیدالاضحی سے قبل جانوروں کی قیمتیں بڑھانے کیلئے اسی طرح کا وائرس پھیلنے کا امکان ظاہر کیا جاتا تھا۔ ہمارا یہی المیہ ہے کہ ہم ازخود امکان ظاہر کر کے منافع خور مافیا کو شہہ دیتے ہیں کہ وہ کسی بھی تہوار سے قبل مہنگائی کا جواز تلاش کر کے عوام کی کھال اتارے۔ اب عیدالاضحیٰ قریب ہے۔ اسے ہم بقر عید بھی کہتے ہیں۔ ہر سال پاکستان میں بھی لاکھوں مسلمان ان تین ایام میں لاکھوں جانور ذبح کر کے حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی عظیم قربانی کی یاد تازہ کر کے سنت ابراہیمیؑ ادا کرتے ہیں۔ ہر سال یہی واویلا مچتا ہے کہ جانوروں کی قیمتیں زیادہ ہیں۔ کوئی پاکستانی ایسا نہیں ملے گا جو یہ بتا سکے کہ کبھی قربانی کے جانوروں کی قیمتیں مناسب تھیں یا کم تھیں۔ ہاں البتہ ہر سال نت نئے بہانے سے قربانی کے جانوروں کی قیمتیں بڑھا ضرور دی جاتی ہیں۔ کبھی چارہ مہنگا کبھی جانوروں کی قلت۔ اور تو اور ہمارے ہاں پٹرول مہنگا ہونے سے بھی جانوروں کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں جیسے یہ سارے جانور پٹرول پر چلتے ہیں۔ اس برس جانوروں کی جلدی بیماری لمپی وائرس بدقسمتی سے پاکستان میں بھی آن دھمکی ہے۔ اس وجہ سے ہزاروں جانور متاثر ہورہے ہیں گرچہ ڈاکٹروں کے مطابق یہ جلدی دانے ہیں ان سے گوشت پر کوئی اثر نہیں ہوتا مگر ظاہر ہے لوگ صحت مند جانور تلاش کرتے ہیں اس لیے منافع مافیا دام بڑھائے گا مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ اگر لوگ ماہرین کے دعوئوں پر یقین کریں تو لمپی وائرس والے جانور ارزاں نرخوں پر بھی مل سکتے ہیں تو مہنگا جانور کیوں خریدیں۔ فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے کہ وہ منافع خوروں کے ہاتھوں لٹتے ہیں یا عقل استعمال کر کے اپنی رقم بچاتے ہیں۔
٭٭٭٭