سر راہے
آم کے تحفے تجارتی سفارتکاری کو فروغ دیتے ہیں۔ دفتر خارجہ
اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا۔ یہ ایک نہایت شریں حقیقت ہے۔ آم کوئی عام پھل نہیں۔ یہ پھلوں کا بادشاہ ہے۔ دنیا بھر میں اس پر مر مٹنے والے پائے جاتے ہیں۔ پاکستانی آموں کی تو بات ہی الگ ہے۔ یہ دنیا بھر میں سب سے اعلیٰ آموں کی فہرست میں سرفہرست ہیں۔ لنگڑا ہو یا سندھڑی۔ دسہرا ہو یا چونسہ یا کوئی اور پنجاب اور سندھ کے آموں کی جب بہار آتی ہے ، یہ مارکیٹ میں آتے ہیں تو ہر آنے جانے والے کی اس پر نظر پڑتے ہی منہ میں پانی آ جاتا ہے۔ فارسی کے ایک شعر میں اس قاتل آم کی مدح کرتے ہوئے چچا غالب کہتے ہیں ترجمہ: ’’انسانی جان میں بھی وہ شرینی نہیں جو آم میں ہے‘‘ اپنے ذائقہ اور مٹھاس کی وجہ سے پاکستانی آم دنیا کا دل جیتنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی لیے دفتر خارجہ کا یہ کہنا سوفیصد بجا ہے کہ آم کے تحفے تجارتی سفارت کاری کو فروغ دیتے ہیں۔ اس لیے دنیا کے مختلف ممالک کو بھی اس آم کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہو گا۔ وہاں بھی اس کی خریداری کے آڈر ملنا شروع ہوں گے۔ اس وقت ویسے بھی آم کے قتل عام کا موسم ہے۔
ہمارے سیاسی رہنمائوں میں نوابزادہ نصراللہ خان اور ان جیسے کئی یاری دوستی نبھانے والے سیاستدان آموں کا تحفہ بھیجنے کے لیے مشہور تھے۔ مگر اب یہ رسم بھی ہماری دیگر مٹتی ہوئی تہذیبی نشانیوں کی طرح آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے۔ ا گر ہماری وزارت تجارت عالمی منڈی میں بہتر انداز میں آموں کو متعارف کرائے تو پاکستان بھاری زرمبادلہ کما سکتا ہے۔ بس دھیان رہے کہ یہ آم اعلیٰ کوالٹی والے ہوں دو نمبری اور خراب آم بھیجنے کی وجہ سے پہلے ہی روس سمیت کئی ممالک نے پاکستانی آموں پر پابندی لگا رکھی ہے۔
٭٭٭٭٭
فون کال ، انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس سے ٹیکس واپسی حکومت کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہے۔ بلاول
حیرت کی بات ہے بجائے شکر کرنے کے کہ حکومت نے موبائل فون ، انٹرنیٹ کالز اور ایس ایم ایس پر لگایا جانے والا ٹیکس واپس لے لیا۔ بلاول زرداری چیں بجیں ہیں کہ حکومت نے ایسا کیوں کیا۔ یعنی انہیں اس بات پر بھی تکلیف ہے کہ حکومت نے عوام کو یہ رعایت کیوں دی۔ اب اگر حکومت نے یہ ٹیکس لگا رہنے دیا ہوتا تو یہی بلاول زرداری فرما رہے ہوتے کہ ظالم حکومت نے غریبوں سے بات چیت اور رابطے کا حق بھی چھین لیا ٹیکس لگا کر۔ اب ’’نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن‘‘ یہ بلاول زرداری ٹیکس لگانے سے خوش تھے نہ واپس لینے پر خوش ہیں۔ البتہ عوام خوش ہیں ہمارے ہاں موبائل ایک قومی بیماری کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ جسے دیکھو کام نہ کاج بس ہاتھ میں موبائل تھامے خدا جانے کیوں ہر وقت پوری دنیا سے رابطے میں نظر آنے کے جنون میں مبتلا ہے۔کئی لوگ تو اس جنون میں اتنا مگن ہوتے ہیں کہ سامنے سے آنے والا ٹرک ، بس کار حتیٰ کہ ٹرین بھی انہیں نظر نہیں آتی اور وہ موبائل سنتے سنتے اگلے جہاں سدھار جاتے ہیں۔ حکومت کو بخوشی اندازہ تھا کہ بھڑ کے چھتوں پر ہاتھ ڈالنا کتنا خطرناک ہوتا ہے۔ اس لیے حکومت نے موبائل فون کالز انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس پر جلد بازی میں زیادہ کمائی کے لالچ میں لگایا جانے والا ٹیکس ہوش آتے ہی فوراً واپس لے لیا گیا۔ ورنہ بلاول جی بھلا کیا کرتے وہ تو صرف گفتار کے غازی ہیں۔ البتہ فرزندان موبائل و انٹرنیٹ نے سڑکوں پر نکل کر حکومت کا تیا پانچہ کر دینا تھا۔ یہ موبائل کے فدائی اور جانثار اس فون کے لیے دنیا سے ٹکرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
غریب ملکوں کو مفت کرونا ویکسین دینگے۔ جی سیون کا اعلان
لگتا ہے غریب ممالک کی بھی سُنی گئی ہے۔ اب چین اور جی سیون ممالک کے درمیان جو ٹسل چل رہی ہے ، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی گیم جاری ہے۔ اس کا فائدہ غریب ممالک کے دروازوں پر دستک دینے لگا ہے۔ چین کا ون بیلٹ روڈ منصوبہ ساری دنیا میں اپنی دھاک بٹھا چکا ہے۔ مشرق تا مغرب شمال تا جنوب تعمیر و ترقی کی صنعت و تجارت کی نت نئی راہیں کھل رہی ہیں۔ یہ سب کچھ مغرب والے بھلا ٹھنڈے پیٹوں کیسے برداشت کرتے۔ گزشتہ دنوں مغربی ممالک کے سات بڑوں کی جو بیٹھک ہوئی اس میں سرجوڑ کر صلاح مشورے ہوئے۔ چین کی راہ روکنے کے منصوبے طے پائے۔ جس کا ثبوت مشترکہ اعلانیہ میں مل گیا۔ اعلانیہ کے مطابق یہ جی 7- ممالک غریب ممالک کو مفت کرونا ویکسین دیں گے۔ ان کے ساتھ تجارت کو فروغ دیں گے۔ ان کی تباہ حال معیشت کی بحالی میں مدد کریں گے۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے۔ ورنہ یہ سرمایہ دار ممالک تو غریب ممالک کا خون بھی نچوڑنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ اب یہ ساری محبت صرف چین کی راہ روکنے کے لیے ہے تاکہ ان ممالک میں چین کا اثر و رسوخ کم کیا جا سکے۔ چین نے پہلے ہی اعلان کیا ہے کہ وہ چند ممالک کے گروہ کو دنیا پر حکمرانی کرنے نہیں دے گا۔ اس نئی سرد جنگ کو اب کیا نام دیا جائے گا۔ سچ تو یہی ہے کہ نام وام میں کیا رکھا ہے۔ اصل میں اب وقت آ رہا ہے کہ غریب ممالک بھی اپنے دام کھرے کریں گے۔
٭٭٭٭٭
بیرون ملک پڑھ کر آنے والا ایرو ناٹیکل انجینئر ریڑھی پر جوس بیچنے لگا
یہ کوئی پہلی مثال نہیں ایسی بے شمار مثالیں ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔ جہاں اہل ، اعلیٰ تعلیمیافتہ افراد جوش ، پاپڑ، پکوڑے ، دہی بھلے بیچتے ہیں اور نااہل واجبی تعلیم والے وہ بھی دو نمبر سندیں حاصل کرنے والے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ شاید اسے بھی ترقی کہتے ہیں تبدیلی کہتے ہیں۔ اب سوات کے عبدالمالک کو اگر ہم تسلی بھی دینا چاہیں تو کن الفاظ میں دیں۔ ہمارے الفاظ کھوکھلے ہو چکے ہیں۔ ہم کسی کی داد رسی بھی نہیں کر سکتے۔ صاف لگتا ہے ہم جھوٹ بول رہے ہیں۔ بس دکھاوے کے لیے جملے بازی کر رہے ہیں۔ اخبار میں آج ایک خبر یہ بھی ہے کہ پاکستان کی ایک بیٹی نے ملک کی سب سے کم عمر ائیرو سپیس انجینئر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ 23 سالہ عروبا آفریدی نے نہایت مشکل میں تعلیم حاصل کی اور یہ اعزاز اپنے نام کیا۔ ابھی اس خبر کی خوشی کم نہ ہوئی تھی کہ سوات کے عبدالمالک کی دکھ بھری داستان سامنے آ گئی ۔ انہوں نے چین سے ائیروناٹیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ مگر وہی ’’پڑھے فارسی بیچے تیل‘‘ والی بات سامنے آئی۔ چند ایک جگہ ملازمت کے لئے ہاتھ پیر مارے مگر کہیں بھی اہلیت کو گھاس نہیں ڈالی گئی یعنی تعلیم قابلیت کے مطابق کام نہ ملا ۔ بالآخر تنگ آ کر اب وہ کراچی آ گئے ہیں جہاں ریڑھی پر پھلوں کا جوس بیچ رہے ہیں۔ کیوں کہ ’’روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر‘‘ آخر اس پاپی پیٹ کو بھرنا ہے گھر والوں کا سہارا بننا ہے۔ خدا جانے ہمارے ہاں ’’حق بہ حقدار رسید‘‘ والی بات کب صحیح ثابت ہو گی اور ہر شخص کو اس کی اہلیت اور قابلیت کے مطابق نوکری ملے گی اور حق تلفی کا یہ منحوس چکر ختم ہو گا۔
٭٭٭٭٭