ّّ’’ مٹھیاں گلاں‘‘
بجٹ2021-22 پارلمینٹ میں پیش کر دیا گیا ،اس پر آئندہ ہفتوں میں بحث کا سلسلہ جاری رہے گا ،ظاہر ہے کہ بجٹ اعدادوشمار کا ایک پلندہ ہوتا ہے ، اس کو چھاننے اور گہرائی میں جانے کی کوشش بہت کم لوگ کرتے ہیں اور اکثریت کا علم سطحی ہوتا ہے ،اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہزاروں صفحات اچانک منظر پر آ جاتے ہیں ، اس کے ساتھ جان بوجھ کر بجٹ پیش کرنے کا وقت شام کا رکھا جاتا ہے،تاکہ دستاویزات تک رسائی اور چھان بین ناممکن نہ بھی ہو تو اس کو مشکل رکھا جائے ،میڈیا کو بہت ہی کم وقت ملتا ہے کہ دستاویزات کو دیکھ کر باریکیوں پر روشنی ڈالی جا سکے اس لئے الیکٹرانک میڈیا پر چند گھنٹے اور اخبارت میں بس اگلے روز تک اس کی کوریج محدود رہتی ہے ،سیاسی جماعتوں،تنظیموں کو بہت ہی کم بجٹ دستاویز پر بات کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے کیونکہ ان کے پاس بھی بجٹ فہمی کو کوئی نظام موجود نہیں ،بس ایک ہی معیار ہے کہ حکومت میں ہیں تو تعریف کرنا ہے اور اگر اپوزیشن میںہیںتو بس مخالفت ہی کئے جانا ہے ،یہ ایک مسترد شدہ معیار ہے ،نہ جانے کب اس ملک کی سیاسی جماعتوں کو سیاسی جماعت بننے کی توفیق ہو گی ،جس روز یہ کام ہوگیا اس روز سے ملک اپنے اصل سیاسی سفر پر روانہ ہو سکے گا اور ان دیکھی مداخلت کی کہانیاں بھی ختم ہو جائیں گی ،کچھ ادارے ہیں جو انگریز ی زبان میں اس پر تبصرہ شائع کرتے ہیں ،اس میں بھی اس لئے عوام کی اکژیت بجٹ میں چھپے ’’بوبی ٹریپ‘‘ سے بے خبر رہتی ہے ،اس انداز سے بجٹ سازی کا طریقہ تاج برطانیہ کے دور میں شروع ہوا،اور آج تک راز داری کی اس قباحت کو ہم نے سینے سے لگایا ہوا ہے ،انگریز تو باہر کے تھے ان کو تو غلاموں سے چھپاناتھا اس لئے راز داری کو قانون بنا دیا ،ہم ایسے پکے نکلے کہ جو چیز ہماری اہانت کے لئے کی گئی تھی اس کو اپنا وطیرہ امتیاز بنا لیا ، اس میںزرا بھر تبدیلی نہیں کی گئی ،اس لئے کہ جو ذہنیت انگریز چھوڑ گئے تھے وہی آج بھی کار فرما ہے ،اعداد وشمار کے اس پلندے میں ایسے راز پنہاں ہیں کہ اگر کوئی کھول دے توپارسا بنے منہ چھپاتے پھریں،بحرحال اس معاملہ پر کسی اور وقت بات ہو جائے گی ،ایک دوست اکثر محو گفتگودوستوں پر ’’مٹھیاں گلاں ہو رہیاں نے ‘‘ کا فقرہ کستے ہیں ،اس کامطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسے ہی وقت گزاری ہو رہی ہے،بجٹ بھی بس مٹیھاں گلاں‘ ہی ہے ،اس میں جو چند پہلو اچھے ہیں ان میںسب سے اہم صنعتوں کو چلانے کی کوشش ہے ، خام مال پر ڈیوٹی کو کم کیا گیاہے ،اس سے توقع کی جا سکتی ہے کہ خام مال کی لاگت میں کمی سے صنعت کو کم لاگت سے مال تیار کرنے کا موقع ملے گا جس سے برآمدات میں اضافہ ممکن ہو گا ،اس کے ساتھ ساتھ خصوصی زونز کے لئے ٹیکس کی مراعات دی گئی ہیں ،یہ اہم قدم ہے ،اگر زونز ترقی کر جاتے ہیں تو یہ ملک کو پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں اہم کرداد اکریں گے ،یہ وہ معاملہ ہے جس میں پالیسی کا تسلسل بہت ضروری ہے ،اس بارے میں بہت ہی دانش مندی سے چلنے کی ضرورت ہے ،مراعات دیتے ہوئے ایک مسلہ پیدا کر دیا گیا ہے جو پاٹا اور فاٹا میں مراعات دینے سے پیدا ہوا ہے ،اس سے ملک کے سیٹلڈ علاقوں کی صنعت شدید متاثر ہو گی،کیونکہ صرف سٹیل کے معاملہ میں15سے20ہزار فی ٹن قیمت کا فرق پڑے گا جس کی وجہ سے ملک کے سیٹلڈ علاقوں میں سٹیل اور گھی کے کارخانے مسابقت کی دوڑ سے نکل جائیں گے ، ایناملی پیدا ہوئی ہے اس کو بجٹ کی منطوری کے عمل میں ہی درست کر لیا جائے تو بہتر ہو گا ،بجٹ میں سرکاری ملازمین کے لئے کوئی خاص ریلیف نہیں ،دس فی صد کا ایڈ ہاک ریلیف دیا گیا ہے ،بہتر یہی تھا کہ پہلے سے چلنے والے ایڈ ہاک ریلیف بنیادی تنخواہ میں شامل کر کے اس پر دس فی صد دے دیا جاتا،یہی وجہ ہے کہ ملازمین کے چہرے اترے ہوئے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ان پر پنشن اور دوسری مراعات میں کمی کی تلوارلٹکی ہوئی ہے،اولڈ ایج بینی فشریز کو بجٹ میںکچھ نہیں دیا گیا ،اس مظلوم طبقہ کی سنی نہیں جاتی کیونکہ یہ بے زبان لوگ سڑک پر آ کر سر پھٹول نہیں کر سکتے اس لئے ان کا ترجمان بھی کوئی نہیں ہے ،وزیر خزانہ نے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں بھی ان کے بارے میں کوئی یقین دہانی نہیں کرائی ،وزیر خزانہ کی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میںجن اہم نکات پر سوال ہوئے ان میںسب سے اہم اور دلچسپ یہ سوال تھا کہ کہ بجٹ کا تاثر گرتی مقبولیت کو سہارا دینا ہے ، 5.8 ٹریلین کے ایف بی آر ریونیو کا ہدف حاصل کرنے کی حکمت عملی کا سوال بھی کیا گیا ،ان دونوں امور کا آپس میں گہرا تعلق ہے ،ایک جانب شارٹ ٹرم ترقیاتی منصوبے بنانا اور ان پر عمل ضروری ہے تو دوسری جانب انھی آخراجات کے بارے میں آئی ایم ایف کو مطمین کر ناہے ،ریونیو بڑھانے کے اپنے پلان کو عمل کیساتھ ثابت کرنا ہے ،آئندہ دوتین ماہ اہم ہیں،اگرریونیو ہدف کے مطابق آگے نہ بڑھا تو ایک ہی راستہ ہوگا، ریونیو میں اضافہ کے لئے منی بجٹ لائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہو گا ،حالات متقاضی ہیںکہ ایف بی آر پر توجہ دی جائے،اس میں ہیومن ریسورس اور ٹیکنالوجی کے استعمال کو آپ گریڈ کیا جائے،قانون کی کتاب پرعمل کی بات کہنا بہت آسان ہے مگر جب عمل کی بارے آتی ہے تو امتحان میں ناکام ہو جاتے ہیں ،یہی چیز ایف بی آر پر بھی صادق ہے ،ادارے کو اس کا کام کرنے دیا جائے اور مداخلت نہیں ہونا چاہئے۔