پاکستان اور افغانستان جنوبی ایشیاء کے دو اہم پڑوسی
پاکستان اور افغانستان جنوبی ایشیاء کے دو اہم پڑوسی ممالک ہیں۔دونوں ممالک تاریخی، جغرافی، لسانی، نسلیتی اور مذہبی وابستگی رکھتے ہیں۔دونوں ممالک کے تعلقات 1947 سے شروع ہوئے جب پاکستان ایک آزاد ملک بنا۔ افغانستان میں بدامنی اور عدم استحکام سارے خطے خاص طور پرافغانستان کے ہمسایوں کے لیے گہری تشویش کا باعث ہے۔ پاکستان ان میں سرفہرست ہے کہ اس کی افغانستان کے ساتھ طویل سرحد مشترک ہے۔ اور سرحد بھی ایسی جس کی نگرانی کا کوئی مستقل بندوبست نہیں۔اس صورت حال کے تدارک کے لیے پاکستان نے پاک افغان سرحدی انتظام پر توجہ دی ہے لیکن سرحدی انتظام کے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں افغانستان کی طرف سے ان کی مزاحمت کی جاری ہے۔ چین کو بھی افغانستان میں بدامنی پر تشویش ہے اور روس کو بھی تشویش ہے کہ افغانستان سے مسلح گروہ وسطی ایشیائی ریاستوں کے راستے روس میں داخل ہو سکیں گے۔ افغانستان کے ہمسایوں میں افغانستان میں عدم استحکام کی صورت حال پر تشویش لازمی امر ہے۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوتے۔ سپاہ سالار قمر جاوید باجوہ نے خطے میں امن کے لیے افغانستان کو ساتھ چلانے کا عزم کیا ہے۔ پاکستان، چین اور روس کی مشترکہ کوشش کے آغاز کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں خطے میں دہشت گردی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ اور اس کا اثر پاکستان پر بھی ہو رہا ہے افغان کے راستے بھارتی اور دیگر دہشت گرد پاکستان اور پاکستان میں شروع ترقیاتی سی پیک جیسے منصوبوں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔افغانستان کو پاکستان کا ساتھ دینا چاہیے۔ افغانستان میں دیر پا امن قائم کرنا پاکستان کی خواہش ہے۔ تجارتی سہولتوں کو طریقے سے بڑھانا ہے تاکہ تجارت بھی ممکن ہو مگر سیکورٹی کلئیرنس ہونے کے بعد باڈراور گیٹ کا مقصد تجارت بند کرنا نہیں ہے بلکہ فلٹر کرنا ہے چیک کرنا ہے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان پرامن تجارت ہوسکے۔۔ اور دہشت گردوں کا بھی خاتمہ کیا جاسکے۔۔ غیرقانونی تجارت کو ختم کرکے قانونی تجارت کو فروغ دینا ہے۔۔ قانونی راستے سے افغان اور پاکستان آنے جانے کا آسان اور بہتر طریقہ بنانا ہوگا۔ تاکہ فلٹر ہونے کر تجارت بھی ہو اور امن بھی۔افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کو بہترین حکمت عملی اور باوقار فتح دکھانے کے لئے پاکستان کا کلیدی کردار تصور کیا جارہا ہے۔دوسری طرف امریکی فوج دُنیا کو یہ باور نہیں کروانا چاہ رہی کہ افغانستان میں 20برس تک موجود رہنے کے باوجود وہ اس ملک میں اپنے اہداف کے حصول میں شرمناک حد تک ناکام رہی۔ جدید ترین اسلحے کا استعمال اور کھربوں ڈالر بھی اس ضمن میں کام نہیں آئے۔ تین ہزار کے قریب امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ان میں سے ہزاروں عمر بھر کے لئے معذور ہوگئے ہیں۔بائیڈن انتظامیہ اپنے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے تسلی دے رہی ہے کہ اس کی حکمت عملی کی بدولت افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء اس ذلت آمیز انداز میں نہیں ہوگاجس کا مظاہرہ 1970کی دہائی میں ویت نام میں ہوا تھا۔امریکی افواج افغانستان سے شکست خوردہ ہوکر ’’بھاگتی‘‘ نظر نہیں آئیں گی۔ادھر دوسری طرف اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے افغانستان کو چالیس سے زیادہ برس گزرچکے ہیں۔ اس طویل عرصے میں بے روزگار نوجوانوں کی بے پناہ اکثریت کو مزاحمت یا جنگ کے علاوہ رزق کمانے کا کوئی اور طریقہ ہی نہیں آتا۔ امریکہ افغانستا ن میں جنگ ہار چکا ہے۔پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 83،000 افراد کو کھویا ہے۔ پاکستان نے زیادہ سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔پاکستان کی اپنی معیشت کو سوا سو ارب کا نقصان ہوا ہے.پاکستان نے مختلف افغان سیاسی دھڑوں کے ساتھ افغان رہنماؤں اور دوطرفہ ملاقاتوں کی میزبانی کی ہے جو پاکستان کے افغانستان میں امن و استحکام کے ساتھ ساتھ باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے کے عزم کو ظاہر کرتی ہے۔صحت اور تعلیم جیسے بنیادی سفر کے لئے پاکستان ہر ماہ افغان لوگوں کو 55000 ویزا فراہم کرتا ہے۔پاکستان خطے میں امن و استحکام کے لئے پرعزم ہے اور وہ امریکہ کو کسی صورت اڈے فراہم نہیں کرے گا۔افغان مسئلے کا حل صرف بات چیت اور سفارتکاری کے ذریعے ہی حل کیے جاسکتے ہیں۔اگرچہ امریکہ کے انخلاء کے نتیجے میں سیکیورٹی چیلنجز پیدا ہو رہے ہیں، لیکن اس نے امن کے بہتر امکانات کو بھی جنم دیا ہے.افغانستان میں امن و استحکام علاقائی رابطے کی حقیقی صلاحیت کو بروئے کار لانے اور جدت طرازی اور تکنیکی ترقیوں کے استعمال کے ذریعے معاشی باہمی انحصار کو مزید گہرا کرنے کے لئے موزوں ماحول کا باعث ہوگا۔ پاکستان ایک واحد پائیدار حل کے طور پر افغان قیادت کے لئے قابل قبول ایک جامع سیاسی گفت و شنید کی حمایت کرتا ہے۔پاکستان سے زیادہ کسی اور ملک نے افغانستان میں امن کا خواہاں نہیں۔افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کو عالمی برادری تسلیم کررہی ہے۔افغانستان میں تمام فریقین کے استحکام اور انسانی حقوق کی پامالیوں سے باز آنا امن کا حتمی مقصد ہونا چاہئے۔ افغانستان کے ساتھ قریبی تعاون پر مبنی تعلقات استوار کرنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کی اعلی ترجیح ہے اور ہمارے ''پر امن محلے'' کے وژن کا ایک اہم جز ہے۔پاکستان نے ہمیشہ امن عمل سے وابستگی کی تصدیق کی ہے۔ یہاں خطے کا امن بگاڑنے والا بھارت ہے، جس نے اپنی خفیہ ایجنسی را کو دہشت گردی کی کاروائیاں کرنے کے لئے سرگرم عمل کیا ہے تاکہ وہ امن عمل کو پٹڑی سے اتار سکتا ہے۔پاکستان عام افغانوں کی زندگیاں بنوانے میں اپنا کردار ادا کررہا ہے تاکہ وہ اپنے معاشرے کا ایک اہم حصہ بن سکیں۔پاکستان اور افغانستان ایک طویل سرحد، نسلی تعلقات اور جغرافیائی تعلقات کو شیئر کررہے ہیں۔پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لئے ایک اہم کردار ادا کیا ہے جبکہ بھارت متعدد طریقوں اور ذرائع سے امن عمل کو درہم برہم کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔پاکستان تمام اسٹیک ہولڈرز کے باہمی اتفاق رائے پر مبنی‘افغان-زیرقیادت افغانی ملکیت’امن عمل کی ہمیشہ حمایت کرے گا۔ بھارت کی مکار ذہنیت اور موجودہ حکومت کا ٹریک ریکارڈ دیکھ کر لگتا ہے کہ بھارت کبھی نہیں چاہے گا کہ افغانستان میں امن قائم ہوں۔ افغانستان میں ایسے عناصر موجود ہیں جو وہاں بدامنی پھیلا رہے ہیں۔ پاکستان نے باڈر پر گیٹ اسی لیے بنایا تھا تاکہ تلاشی اور ویزہ کے بعد ہی لوگ ادھر ادھر جاسکیں اور سکیورٹی صورتحال بہتر ہو۔ باڈر بھی اسی لیے بنایا تھا تاکہ حالات پرامن ہوں اور دونوں اطراف کے شہری محفوظ ہوں۔ پاکستان اور افغانستان کو تقسیم کرنے کی بھارت کی کوششیں زیادہ عرصے تک نہیں چل سکتیں۔ کیونکہ پاکستان افغانستان کا خیر خواہ اور دوست ملک ہے۔۔ مگر یہ بات افغانستان کو سمجھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بگاڑنے کی بھارت کوشش کامیاب نہیں ہو گی۔بھارت کی کوششوں سے افغانستان کا پاکستان سے رشتہ خراب نہیں ہو گا۔ افغانستان اس وقت بدامنی اور لاقانونیت کا ایسا گندہ تالاب بن چکا ہے جس میں دہشت گردی کی ہر قسم اور نوع کی گندی مچھلی پائی جاتی ہے۔ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ دہشت گردی کی اس بہتی گنگا میں بہت سی پوشیدہ قوتیں بھی اپنے اپنے ہاتھ دھو رہی ہیں۔ خاص طور پر بھارت اس سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے۔ اور پاک افغان تعلقات میں گہری خلیج پیدا کرنے کے لیے انہیں مسلسل اکسا رہا ہے۔ بھارت کی ان سازشوں کی وجہ سے پاک افغان تعلقات کشیدگی کا شکار ہوئے۔ بھارت ہمدردی و دوستی کا دکھاوا کررہا ہے جبکہ حقیقی برادر و اسلامی ملک صرف اور صرف پاکستان ہی افغانستان کی خوشحالی چاہتا ہے۔