مسئلہ کشمیر کا کوئی بھی یکطرفہ حل نہ قومی مفاد میں ہے نہ قابل قبول ہو سکتا ہے
بشکیک شنگھائی کانفرنس! وزیراعظم عمران کی بھارت کے ساتھ تنائو میں کمی اور کسی کی بھی ثالثی قبول کرنے کی خواہش
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم بھارت سے تنائو میں کمی چاہتے ہیں تاکہ ہمیں ہتھیار نہ خریدنے پڑیں۔ گزشتہ روز کرغیزستان کے شہر بشکیک میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر روسی خبررساں ایجنسی سپوتنک کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ روس اور پاکستان کے مابین دفاعی تعاون میں اضافے کی امید ہے۔ انہوں نے کہا کہ 60, 50 70, کی دہائیوں کی سرد جنگ میں پاکستان امریکہ کا اتحادی رہا تاہم اب حالات بدل چکے ہیں۔ اب ہم روس کے ساتھ تعلقات استوار کرچکے ہیں۔ روس سے ہتھیار خریدنے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہتھیاروں کی خریداری کے معاملہ میں پاک فوج روسی فوج سے رابطے میں ہے۔ مسئلہ کشمیر پر بات چیت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کا بھارت کے ساتھ سب سے بڑا تنازعہ ہی کشمیر پر ہے۔ اگر دونوں ممالک کی حکومتیں چاہیں تو مسئلہ کشمیر حل ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے بھارت کی جانب سے اس معاملہ میں ابھی تک حوصلہ افزاء جواب نہیں ملا۔ امید ہے کہ بھاری مینڈیٹ والے بھارتی وزیراعظم مودی بہتر تعلقات کیلئے کام کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تمام پڑوسی ممالک سے پرامن تعلقات چاہتے ہیں اور پاک بھارت اختلافات بات چیت سے حل ہونے چاہئیں۔ دونوں ممالک کے سربراہ پرعزم ہوں تو تنازعہ کشمیر بھی بات چیت سے حل ہو سکتا ہے۔ پاکستان مسئلہ کشمیر پر کسی بھی ملک کی جانب سے ثالثی کا خیرمقدم کریگا۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل وہاں کے عوام کو حق خودارادیت دینا ہے‘ جنگ سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا‘ ہم خطے میں امن چاہتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ اگر بھارتی وزیراعظم مودی بھی وزیراعظم عمران خان کی طرح پاکستان بھارت تنازعات باہمی بات چیت سے حل کرنے میں مخلص ہوں تو بشکیک میں منعقد ہونیوالا شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس اس کیلئے بہترین فورم تھا جہاں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم خود بھی ایک میز پر بیٹھ کر دوطرفہ مذاکرات کیلئے پیش رفت کرسکتے تھے اور اسی طرح اجلاس میں شریک دوسرے رکن ممالک کے سربراہان بشمول روسی صدر پیوٹن بھی مثبت تجاویز کے ساتھ دونوں ممالک میں افہام و تفہیم کی راہ ہموار کر سکتے تھے مگر پاکستان دشمنی کی بنیاد پر ووٹ لے کر دوبارہ بھاری اکثریت کے ساتھ تخت دہلی پر براجمان ہونیوالے ہندو انتہاء پسندوں کے نمائندے مودی کے تیور ہی بدلے ہوئے نظر آئے جنہوں نے شنگھائی کانفرنس کیلئے بشکیک روانہ ہونے سے پہلے یہ بڑ مار کر پاکستان بھارت کشیدگی کو مزید فروغ دیا کہ ہم کشمیر کو کسی قیمت پر بھارت سے الگ نہیں ہونے دینگے اور ہم نے اسی تناظر میں کشمیر کو ہم سے چھیننے کی بات کرنیوالے دشمن کو کرارا جواب دیکر اپنے عوام کے دل جیتے ہیں۔ اس موقع پر صرف مودی نے ہی نہیں‘ بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے بھی گیدڑ بھبکی لگائی کہ پاکستان کی جانب سے گولہ باری کا سلسلہ بند نہ کیا گیا تو ہم اس پار سے آنیوالی ہر گولی کا جواب دس گولیوں سے دینگے۔
مودی پاکستان کیخلاف نفرت انگیز جذبات ابھارنے اور کشمیر کو بھارت سے کسی صورت الگ نہ ہونے دینے کی بڑ مارنے کے بعد بشکیک گئے جہاں وزیراعظم پاکستان عمران خان اور علاقائی امن و آشتی کے خواہاں خطے کے دوسرے ممالک کے سربراہان بھی موجود تھے تو مودی سے بھلا کیسے توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ لوک سبھا کا دوبارہ انتخاب جیتنے کی خاطر بھارتی عوام میں پاکستان دشمنی کے جذبات سمو کر بشکیک میں وزیراعظم پاکستان کے ساتھ جپھیاں ڈالتے نظر آئینگے۔ چنانچہ انہوں نے شنگھائی کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم پاکستان کے ساتھ بعینہ وہی سردمہری والا طرز عمل اپنایا جو گزشتہ سال ستمبر میں نیویارک میں اس وقت کی بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج نے جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی کے ساتھ روا رکھا تھا۔ سشما بھی وہاں مخدوم شاہ محمود قریشی سے پہلو بچا کر رفوچکر ہوگئیں اور پھر اپنی تقریر اور میڈیا سے گفتگو کے دوران پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کرتی نظر آتی رہیں جبکہ بھارتی وزراء اعظم مودی نے بھی گزشتہ روز بشکیک میں وزیراعظم عمران خان کے ساتھ قطعی غیراخلاقی اور غیرسفارتی طرز عمل کا مظاہرہ کیا۔ یہ دونوں وزراء اعظم اکٹھے کانفرنس ہال میں داخل ہوئے مگر ایک دوسرے سے بے نیاز رہے اور دونوں میں مصالحہ یا معانقہ تو کجا‘ آنکھیں چار ہونے تک کی بھی نوبت نہ آسکی۔ اسکے باوجود وزیراعظم عمران خان کی جانب سے علاقائی امن و آشتی کی خاطر پاکستان بھارت کشیدہ تعلقات سازگار بنانے اور مسئلہ کشمیر سمیت تمام باہمی تنازعات دوطرفہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی معصوم خواہش کا اظہار کیا جاتا رہا جبکہ انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کسی کی بھی ثالثی قبول کرنے کا بھی عندیہ دے دیا۔
اگر بھارت مسئلہ کشمیر اور دوسرے باہمی تنازعات دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے میں مخلص ہوتا اور اسے علاقائی امن و استحکام مقصود ہوتا تو وہ 1972ء میں پاکستان کے ساتھ زبردستی کئے گئے شملہ معاہدہ کی ہی پاسداری کرتے ہوئے اسکے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کی راہ پر آجاتا مگر بھارتی لیڈران کی نیت میں تو پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے تشکیل پاکستان کے وقت سے ہی فتور پیدا ہوگیا تھا جس نے کشمیر پر قبضہ ہی پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشیں پایۂ تکمیل کو پہنچانے کیلئے کیا تھا۔ اس نے کشمیر پر تسلط جمانے کے بعد اسکے بھارتی اٹوٹ انگ ہونے کی رٹ لگانا شروع کی اور اسی بدنیتی کے تحت کشمیریوں کے استصواب کے حق کیلئے منظور کی گئی یواین جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں سے بھی صریحاً انحراف کیا اور پھر اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ وادی کو باقاعدہ بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا تو پاکستان کی سلامتی کیخلاف اور کشمیریوں کے مستقبل کے حوالے سے اسکے عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ انہی عزائم کے تحت بھارت نے پاکستان کو دولخت کیا اور پھر باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہوگیا جبکہ شملہ معاہدے کے تحت پاکستان کو کوئی بھی باہمی تنازعہ اقوام متحدہ یا کسی دوسرے علاقائی و عالمی فورم پر نہ اٹھانے کا پابند کرکے اس نے دوطرفہ مذاکرات کی بھی اب تک نوبت نہیں آنے دی اور وہ کسی بھی فورم پر مسئلہ کشمیر کا تذکرہ سننا بھی گوارا نہیں کرتا تو اس سے یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کی بدنیتی اپنے دل میں بسا کر کشمیریوں کے استصواب کے حق کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر حل کرنے پر بخوشی آمادہ ہو جائیگا اور اس مسئلہ کے قابل قبول حل کیلئے کسی کا ثالث بننا بھی قبول کرلے گا۔ اس تناظر میں یہی تلخ حقیقت ہے کہ بھارت نہ پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی کم کرنے کی راہ پر آئیگا اور نہ ہی دوطرفہ مذاکرات یا کسی ثالثی کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر حل کرنے پر آمادہ ہو گا چاہے یہ حل مقبوضہ کشمیر تمہارا اور آزاد کشمیر ہمارا والا ہی کیوں نہ ہو۔ مسئلہ کشمیر کے حل کا یہ یکطرفہ فارمولا ہمارے جرنیلی آمر مشرف بھی پیش کرچکے ہیں جسے بھارت نے رعونت کے ساتھ ٹھکرادیا تھا اور پھر بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے بھارتی توسیع پسندانہ عزائم کو اجاگر کرتے ہوئے ناشتہ امرتسر‘ لنچ لاہور اور ڈنر کابل میں کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ بھارت کی کانگرسی حکومت بھی کشمیر کی بھارتی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی پر قائم رہی اور مقبوضہ کشمیر کے علاوہ پاکستان سے ملحقہ آزاد کشمیر پر بھی بھارتی حق جتاتی رہی جبکہ موجودہ حکمران بی جے پی بھی نریندر مودی کی قیادت میں اپنے گزشتہ اور موجودہ دور اقتدار میں آزاد کشمیر اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات کو بھی اس سے چھیننے کی بڑ مارتی نظر آتی ہے جس نے پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی بھی اسی بدنیتی کے تحت برقرار رکھی ہوئی ہے۔
بے شک وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سنبھانے سے اب تک بھارت کے ساتھ تعلقات سازگار بنانے اور جنگ سے حتی الوسع گریز کرنے کی پالیسی ہی اختیار کررکھی ہے جنہوں نے مودی کے دوبارہ انتخاب سے پہلے بھی اور انکے کامیاب ہونے کے بعد بھی ان کیلئے خیرسگالی کے جذبات کا اظہار اور علاقائی امن و استحکام کیلئے انکے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا مگر مودی کی جانب سے خیرسگالی کے اس جذبے کا جواب ہمیشہ کشیدگی بڑھا کر دیا گیا جبکہ انہوں نے وزیراعظم پاکستان کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں مدعو نہ کرکے بھی پاکستان کے ساتھ اپنے خبث باطن کا اظہار کیا۔
بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے امریکہ‘ چین اور یورپی یونین کی جانب سے بھی ثالثی کی پیشکش کی گئی تھی جو دہلی سرکار نے رعونت کے ساتھ ٹھکرائی اس لئے اب مودی سرکار سے بھی یہ توقع ہرگز نہیں کی جا سکتی کہ وہ زبردستی اپنے اٹوٹ انگ بنائے گئے کشمیر سے کسی ثالثی کی بنیاد پر دستبردار ہونے پر آمادہ ہو جائیگی۔ مسئلہ کشمیر کا حل بہرصورت یواین قراردادوں کی بنیاد پر کشمیریوں کے استصواب کے ذریعے ہی ممکن اور قابل قبول ہو سکتا ہے جس کیلئے ہمیں بھارت پر ہر ممکن عالمی دبائو ڈلوانا ہوگا۔ گزشتہ روز ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اپنی رپورٹ میں مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی فورسز کے مظالم کو علاقائی کشیدگی کی بڑی وجہ قرار دیا ہے۔ اگر اقوام متحدہ کے رکن ممالک ایمنسٹی انٹرنیشنل کی موجودہ اور سابقہ رپورٹوں کی بنیاد پر بھارت پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے یواین قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے دبائو ڈالیں اور اسکے انکار کی صورت میں اسکے ساتھ ہر قسم کے تعلقات منقطع کرنے کی پالیسی طے کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ بھارت کو یواین قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرنے پر مجبور نہ کیا جاسکے۔ اس تناظر میں بھارتی سردمہری اور تلخ رویے کے باوجود ہماری جانب سے مودی سرکار کو باربار خیرسگالی کا پیغام بھجوایا اور دوستانہ مراسم کی خواہش کا اظہار کیا جائیگا تو اس سے مکار ہندو بنیاء کی رعونت میں مزید اضافہ ہوگا۔ اب مناسب یہی ہے کہ ملک کے اس اعلانیہ دشمن کے ساتھ جیسے کو تیسا والی پالیسی اختیار کرکے اسکے ہاتھوں علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو لاحق خطرات سے اقوام عالم کو مسلسل آگاہ اور باخبر رکھا جائے تاکہ عالمی قیادتیں اور ادارے بھارت پر قیام امن کی خاطر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے دبائو بڑھانے پر قائل ہو سکیں۔ مسئلہ کشمیر کا کوئی یکطرفہ حل نہ ہمارے مفاد میں ہے اور نہ ہی پاکستان اور کشمیر کے عوام کیلئے قابل قبول ہو سکتا ہے۔