پاکستان سے پھر ڈورمور کے تقاضے
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط کا دفاع کیا اور کہا ہے کہ خطے میں دہشت گردی کیلئے پاکستان کی حمایت ناقابل قبول ہے جس کے خلاف سخت موقف اپنایا گیا ہے۔
پومپیو 24 تا 30 جون بھارت اور سری لنکا سمیت ایشیائی ممالک کا دورہ کرینگے۔ دورے کی کامیابی کیلئے وہ بھارت کے حق میں بیان دیتے ہوئے حقائق کونظرانداز کر رہے ہیں۔ بھارت کی محبت میں وہ اس حد تک چلے گئے کہ اسی کی زبان بولنے لگے۔ پاکستان تو خود دہشتگردی کے گرداب سے بڑی جدوجہد اور قربانیوں سے نکل رہا ہے۔ وہ کس طرح دہشتگردی کی حمایت کر سکتا ہے۔ پاکستان افغان جنگ میں امریکہ کی حمایت کر کے خسارے سے دوچار ہوا۔ دس ہزار فوجیوں سمیت 80 ہزار پاکستانی اس نامراد جنگ کا ایندھن بن گئے۔ 120 ارب کا انفراسٹرکچر تباہ ہوا۔ لاکھوں افراد بے گھر ہوئے جن کی ہنوز بحالی نہیں ہو سکی۔ پومپیو اسکے اعتراف کے بجائے پاکستان کو موردازام ٹھہراتے ہوئے ڈومور کے تقاضے کر رہے ہیں۔ ادھر جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کی امریکی نائب سیکرٹری ایلس ویلز نے بھی پاکستان کو کچھ جلی کٹی سنائیں اور پاکستان کی اہمیت اور ضرورت کا بھی اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا لشکر طیبہ، جیش محمد تنظیمیں سرگرم رہیں تو دنیا مستقل خطرہ میںرہے گی۔ جیش محمد کے سربراہ پر اقوام متحدہ کی پابندی سے دنیا کو مثبت پیغام ملا ہے ۔ پاکستان نے اقوام متحدہ سے بھی قبل ان تنظیموں پر پابندی لگا دی تھی۔ ویلز کا کہنا ہے کہ امریکہ کے 2020ء بجٹ میں پاکستان کیلئے عسکری امدادی فنڈ شامل نہیں، بجٹ میں پاکستان کیلئے سویلین امدادی پروگراموں پر توجہ ہو گی۔ پاکستان کی عسکری فنڈنگ روکنا اور بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدے خطے میں دفاعی توازن میں مزید بگاڑ پیدا کرینگے۔ ایلس ویلز کا یہ کہنا پومپیو کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے کہ افغان امن عمل میں طالبان کومذاکرات کی میز تک لانے میں پاکستان کے کردار کو سراہتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ کو پاکستان کی ضرورت‘ کردار اور افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے اسکی اہمیت کا احساس ہونا چاہئے۔