ہفتہ‘ 11؍ شوال المکرم 1440ھ‘ 15؍ جون 2019ء
برطانوی وزیراعظم کا انتخاب : بورس جانسن کو 114 ، ساجد جاوید کو 23 ووٹ ملے۔
برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی یا اخراج بریگزٹ کہلاتا ہے۔ برطانیہ میں ان دنوں قدامت پرست جماعت کنزرویٹو کی حکومت ہے، بریگزٹ کے مسئلے پر رائے عامہ اور خود پارٹی کے اندر تنائو اور کشیدگی کے باعث وزیراعظم تھریسامے مستعفی ہو چکی ہیں۔ ایک لندنی دوست MAY کی رعایت سے اُنہیں تھریسا مائی کہتے ہیں۔ کنزرویٹو پارٹی کے ایک اہم رُکن ساجد جاوید وزیر داخلہ تھے۔ جیسا کہ اُن کے نام سے ظاہر ہے وہ پاکستانی نژاد ہیں۔ وہ خود ساز (سیلف میڈ) ہیں۔ تھریسامے کابینہ کے ذہین ترین وزیر شمار ہوتے تھے۔ پارٹی کے لیے اُن کی خدمات بے شمار ہیں۔ لیکن اُن کے آگے آنے میں اُن کا پاکستانی نژاد ہونا رکاوٹ بن گیا ہے۔ علاوہ ازیں پارلیمنٹ میں بھارتی نژاد ارکان بھی کافی تعداد میں ہیں۔ وہ بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ کچھ بھی ہو، پاکستانی نژاد وزیر اعظم نہیں بننے دینا۔ برطانیہ کے ارب پتیوں میں بلکہ سب سے امیر برطانوی ایک بھارت نژاد ہے۔ پاکستانی نژاد ہونا، بھارتی لابی کی لابنگ اور خود انگریزوں کا احساس کمتری اُن کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ صادق خاں لندن کے میئر بنے، حالانکہ وہ میرٹ پر آگے آئے تھے لیکن انگریز اُنہیں بھی بہ مشکل برداشت کر پائے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس سے اُن کی سُبکی ہوئی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ دُنیا پر حکومت کرنے والی قوم بانجھ ہو گئی ہے ، اُس نے ایسے لوگ پیدا کرنے بند کر دئیے ہیں، جو حکومت چلا سکیں۔ وہ ایمپائر جس پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا اب اُس کو رنگ دار یا کالے چلا رہے ہیں۔ انگریز تو شائد کسی پاکستانی نژاد کی سیادت قبول کر لیں، لیکن بھارتیوں سے یہ برداشت نہیں ہو سکے گا۔
٭٭٭٭٭
حساب دینے کو تیار ہوں۔ اسحٰق ڈار
اسحٰق ڈار مسلم لیگ ن کی حکومت میں وزیر خزانہ تھے، ان دنوں لندن میں خود ساختہ جلاوطنی گزار رہے ہیں اُن کا دعویٰ ہے کہ وزیراعظم عمران خاں کا یہ کہنا کہ گزشتہ دس سال میں قرضے چھ ہزار ارب سے 30 ہزار روپے تک پہنچ گئے۔ وہ بالکل درست نہیں۔ میں ان کا حساب دینے کو تیار ہوں۔ یہ تو حکومت ہی بتا سکتی ہے کہ وہ حساب لینے کو تیار ہے یا نہیں۔ البتہ وثوق سے کہا جا سکتا کہ وہ احتساب پر ہر وقت تیار ہے۔ ویسے بھی حکومت کو اسحاق ڈار کے حساب دینے کے جال میں نہیں پھنسنا چاہئے۔ وہ چارٹرڈ اکائونٹنٹ سے وزیر خزانہ کے رُتبے تک پہنچے۔ اعداد و شمار کے بازی گر ہیں۔ زبانی کلامی ہندسوں کو اوپر نیچے اور اِدھر اُدھر کرنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ کوئی بھی معیشت دان ڈالر کو مٹھی میں لینے کا دعویٰ نہیں رکھتا، کہتے ہیں کہ یہ کام مچھلی کو مٹھی میں بند رکھنے سے بھی مشکل ہے لیکن موصوف نے نون لیگ کے دور میں اسے مٹھی میں کس طرح بند رکھا۔ اس پر سبھی حیران ہیں بلکہ اُنہوں نے اس سارے عرصے ڈالر کو ٹانگ سے پکڑے رکھا کہ ڈالر جونہی اوپر اُٹھتا وہ اسے نیچے کھینچ لیتے۔ مسلم لیگ (ن) کے لیڈر کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے 5 سالہ دور میں تقریباً 9 ہزار 8 سو ارب ڈالر قرضہ لیا اور اسی دور میں 18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوا۔ ہزاروں کلومیٹر کی ورلڈ کلاس سڑکیں بنائیں۔ دعویٰ اور جواب دعویٰ بلا کم و کاست نقل کر دیا ہے۔ ہم اس باب میں مزید کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں۔ تاہم حق کے متلاشی ہونے کی حیثیت سے دل سے ضرور چاہیں گے کہ اس معاملے میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کے لیے اسحٰق ڈار کی پیشکش قبول کر لی جائے۔
٭٭٭٭٭
سسٹم بچانے کے لیے 5 ہزارافراد کو پھانسی دے دو۔ وفاقی وزیر فیصل واوڈا
وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو میں کہا ہے کہ ملک کے 5 ہزار کرپٹ لوگوں کو پھانسی دینے سے 22 کروڑ پاکستانیوں کی قسمت بدل جائے گی۔ ہم سمیت کون نہیں چاہے گا کہ اُس کی قسمت بدلے ، لیکن روایت کے مطابق اسی پروگرام میں موجود پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر سعید غنی نے ہمارے خوابوں کا محل یہ کہہ کر دھڑام سے گرا دیا کہ ان 5 ہزار لوگوں میں 70 فیصد تو آج آپ (تحریک انصاف) کیساتھ ہیں۔ ایک جمہوری ملک میں جہاں قتلِ عمد کا ملزم تختہ دار تک پہنچتے پہنچتے بوڑھا ہو چکا ہوتا ہے۔ اُس میں ایک ساتھ اتنے لوگوں کو اپنی 5 سالہ آئینی مدت میں جس کا ایک سال گزرنے والا ہے، لٹکانا کیسے ممکن ہو گا۔ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ پانچ ہزار لوگوں کو لٹکانے کی بجائے ان سے وہ پیسے نکلوائے جائیں جو اُنہوں نے کرپشن اور لوٹ مار سے حاصل کئے ہوئے ہیں۔ بندے مارنے سے ادائیگیوں کا توازن بہتر نہیں ہو جائے گا۔ غیر ملکی قرضے نہیں اُتر جائیں گے ملک کو خطِ غربت سے نجات نہیں مل سکے گی۔کرپشن کے خاتمے کیلئے کسی دوسرے ملک کی پیروی اگر کرنی ہے ضرور کریں مگر ایسا نہ ہو کہ وصول بھی کچھ نہ ہو اور جگ ہنسائی بلکہ بدامنی خرید لیں۔
٭٭٭٭٭
لاہور سے کراچی جانے والی متعدد ٹرینوں کے اے سی بند، مسافر خوار
بدگمانی اچھی نہیں لیکن خبر کی تہہ میں اُتر کر دیکھیں تو صاف سمجھ آتی ہے کہ خبر بنانے والے کی ہمدردیاں مسافروں کے ساتھ نہیں بلکہ وہ اس کی آڑ میں قبلہ شیخ صاحب کی شاندار کارگزاری کو کم کر کے دکھانا چاہتا ہے۔ یہ درست ہے کہ وہ بہت دعوے کرتے ہیں کہ مسافروں کو بہترین سفری سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ اے سی بند ہونے کی ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ انتظامیہ کے پاس اے سی پلانٹ میں بھرنے کے لیے گیس ہی ختم ہو گئی ہے۔ اب بھلا اس میں شیخ صاحب کا کیا قصور؟ دراصل ایسی خبریں پھیلانے والے چاہتے ہیں کہ وہ آنجہانی لال بہادر شاستری بنیں جنہوں نے بھارت میں ایک ریلوے حادثے پر اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد ہمارے ہاں دو ریل گاڑیوں میں تصادم ہو گیا۔ خاصی ہلاکتیں ہوئیں ، اس سانحہ پر ریلوے وزیر سے پوچھا گیا کہ آپ شاستری کی تقلید کرتے ہوئے مستعفی کیوں نہیں ہوئے تو جواب دیا ، لاحول ولا قوۃ میں ہندو کی تقلید کیوں کروں؟ اور دوسرا یہ کہ کانٹا میں نے تو نہیں بدلا تھا۔ دراصل کچھ عناصر ریلوے کو ایک فعال وزیر سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ اب یہ بھی تو دیکھیں کہ اُنہوں نے زرداری دور کے وزیر غلام محمد بلور کی طرح ریل گاڑیاں بند نہیں کیں بلکہ پرانی بوگیوں اور ڈبوں کو استعمال کرتے ہوئے کئی نئی ریل گاڑیاں چلا دیں۔ رہ گیا تیس ارب کا خسارہ ! تو اُس کا حساب چھوڑیں۔ شیخ صاحب کی آنیاں جانیاں دیکھنے سے ہی اے سی کے بند ہونے کی فکر ختم ہوجاتی ہے۔