پاکستان میں ہر سال قومی بجٹ پیش کیا جاتا ہے۔ قومی بجٹ سے پہلے سالانہ معاشی سروے میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ حکومت گزشتہ مالی سال کے کے معاشی اہداف پورے نہیں کر سکی۔ پاکستان میں آج تک عوام دوست بجٹ پیش نہیں کیا جا سکا۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بجٹ بنانے والے طبقات کا عام آدمی کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے عوام قومی بجٹ کو ایک رسمی کارروائی سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ہر سال پیش کیے جانے والا بجٹ ان کی مشکلات میں اضافہ ہی کرتا ہے۔ تحریک انصاف کا یہ موقف درست ہے کہ اسے ان حالات میں اقتدار ملا جب کہ گزشتہ حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے بھی تسلیم کیا ہے کہ گزشتہ مالی سال کے معاشی اہداف جو صنعت زراعت سروسز کرنٹ اکاونٹ خسارے جی ڈی پی گروتھ کے سلسلے میں مقرر کیے گئے تھے وہ حاصل نہیں کیے جا سکے۔ اس ناکامی کے باوجود حکومت کے معاشی ماہرین عوام کو یہ یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ انہوں نے موجودہ مالی سال کے لئے جو اہداف مقرر کیے ہیں وہ حاصل کر لیے جائیں گے۔ جن کے نتیجے میں معاشی استحکام آئے گا اور عوام کی معاشی مشکلات ختم ہو جائیں گی۔ اس صورتحال میں یہ شعر یاد آتا ہے
ہم بدلے نہ تم بدلے نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیسے اعتبار انقلاب آسماں کر لوں
غیر جانبدار معاشی ماہرین کے مطابق حکومت نے چونکہ نئے سال کا بجٹ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے مطابق پیش کیا ہے اس لئے یہ بجٹ عوام دوست نہیں ہو سکتا۔ بجٹ کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے عوامی وعدوں اور تحریک انصاف کے پارٹی منشور کا کوئی عکس بجٹ میں نظر نہیں آتا۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تحریک انصاف کے نظریاتی اور فکری مخالفین نے ریاست کے معاشی امور کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ قومی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کرنے کے بعد امریکی اہل کار کا یہ بیان تشویشناک ہے کہ حکومت پاکستان معاشی اصلاحاتی ایجنڈے پر عملدرآمد کرے۔
کیا یہ بیان اس بات کا اشارہ نہیں ہے کہ پاکستان کے قومی امور کا کنٹرول پاکستان سے باہر شفٹ ہو رہا ہے۔ حکومت پاکستان کی ترجمان ڈاکڑ فردوس عاشق اعوان نے سچ بولتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ بجٹ کڑوی گولی ہے جو معاشی صحت کے لئے ضروری ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے معاشی مشکلات کے باوجود اس بات کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کے عوام کو ہر ممکن ریلیف مہیا کیا جائے چنانچہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنروں کی مراعات میں دس فیصد اضافہ کیا گیا ہے، بجلی کے غریب صارفین کے لئے 200 ارب روپے کی سبسڈی رکھی گئی ہے۔ محنت کشوں کی کم سے کم تنخواہ 17500روپے مقرر کی گئی ہے۔کسانوں کو مشکلات سے نکالنے اور فوڈ سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لئے سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے زراعت کی ترقی کے لئے خصوصی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ حکومت نے اپنے اخراجات میں کمی کی ہے، وفاقی کابینہ کی تنخواہوں میں دس فیصد کٹوتی کی گئی ہے۔ پاک فوج نے معاشی مشکلات کے پیش نظر دفاعی بجٹ میں رضاکارانہ طور پر اضافے کا مطالبہ نہیں کیا۔ جس ملک میں دفاع اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی پر 50 فیصد سے زیادہ بجٹ خرچ ہو جاتا ہو اس ملک میں عوام کی فلاح و بہبودکیسے ممکن ہو سکتی ہے اور ایک ریاست مدینہ کا خواب کیسے پورا کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کا بنیادی المیہ یہ ہے کوئی بھی حکومت ابھی تک ٹیکس نیٹ میں اضافہ نہیں کر سکی اور ان امیر لوگوں سے ٹیکس لینے میں ناکام رہی ہے جو ٹیکس نیٹ میں آ سکتے ہیں۔ چنانچہ تمام ٹیکسوں کا بوجھ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی صورت میں عوام پر ہی ڈال دیا جاتا ہے یا وہ لوگ جو ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ ان کے ٹیکس بڑھا کر ریونیو میں اضافہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔جب تک یہ صورتحال قائم رہے گی پاکستان کسی صورت معاشی بحران پر قابو نہیں پا سکے گا اور معاشی استحکام کی جانب نہیں بڑھ سکے گا ۔ جب ریاست ہی بے بس ہو جائے اور ٹیکس نادہندہ افراد سے ٹیکس نہ لے سکے تو اس سے عوامی فلاح کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ عوام کو یاد ہے کہ وزیراعظم عمران خان اکثر یہ دعوے کرتے رہے ہیں کہ وہ اگر اقتدار میں آ گئے تو پاکستان کے عوام کیونکہ ان پر اعتماد کرتے ہیں اس لیے وہ خوشی سے ٹیکس دینے پر آمادہ ہوں گے مگر تاحال ان کا یہ خواب پورا نہیں ہو سکا جس پر ان کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ معاشی استحکام کا یہی بنیادی نکتہ ہے کہ ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے اور بجٹ کے خسارے کو کم کیا جائے۔ اس کے علاوہ اور کوئی پاکستانی حل موجود نہیں ہے، باقی جو بھی نسخے ہیں وہ غیر پاکستانی ہیں جو پاکستان کے لیے زہر قاتل ثابت ہو رہے ہیں۔پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں تجارتی اور اقتصادی تنظیمیں اور معاشی ماہرین بجا طور پر موجودہ قومی بجٹ پر تنقید کر رہے ہیں اور یہ باور کروا رہے ہیں کہ اس بجٹ کے بعد پاکستان کے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجائے گا ۔ پاکستان کے عوام کی خواہش ہے کہ اپوزیشن کی جماعتیں ان کے بنیادی حقوق کے لئے لیے سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے نئے بجٹ کے سلسلے میں متبادل سفارشات پارلیمنٹ کے اندر پیش کریں تاکہ ان کی روشنی میں عوام کی مشکلات کو آسان بنایا جا سکے۔ احتجاجی مظاہرے اور ہنگامہ کرکے معاشی مسئلہ حل نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی پاکستان کے عوام کو معاشی بوجھ سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم اگر سیاسی اور پارلیمانی طور پر مضبوط ہوتے تو وہ اپنے نئے پاکستان اور تبدیلی کے ویژن کے مطابق انقلابی اقدامات اٹھاتے۔ پاکستان کے امیر افراد پر دولت ٹیکس لگایا جاتا زراعت کی آمدن پر انکم ٹیکس لازمی قرار دیا جاتا، بے نامی پراپرٹی پر ٹیکس عائد کیا جاتا، زرعی اصلاحات نافذ کرکے زرعی اراضی کی حد 25 ایکڑ فی خاندان مقررکی جاتی، بے زمین کاشت کاروں کو سرکاری زمین الاٹ کی جاتی تو لوگوں کو حقیقی معنوں میں ایک نیا پاکستان نظر آتا مگر افسوس کہ حالات کے جبر نے یہ خواب بھی پورا نہیں ہونے دیا۔ عوام نے جس جوش اور جذبے کے تحت تحریک انصاف کو کامیاب کرایا تھا اور ایک نیا خواب دیکھا تھا ان کا یہ خواب پورا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ وزیراعظم عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ وزیر اعظم ہائوس اور گورنر ہاؤس خالی کروا لیں گے اور اسی طرح سرکاری ملازمین کے بڑے سرکاری بنگلے بھی خالی کرائے جائیں گے اگر وہ اپنی اس تجویز پر عمل کرتے اور سرکاری بنگلوں کو ختم کر کے وہاں پر رہائشی اور کمرشل فلیٹ تعمیر کروائیں تو اس قدر آمدن ہو سکتی ہے کہ پاکستان کا بجٹ خسارہ کافی حد تک کم ہو سکتا ہے۔ مگر اس کے لئے لیے سیاسی اور پارلیمانی طاقت اور عدالتوں کو مطمئن کرنے کی ضرورت ہے۔ جب بھی قومی بجٹ پیش ہوتا ہے تو شاعر انقلاب اور شاعر عوام حبیب جالب یاد آتے ہیں جنہوں نے 1991ء میں کہا تھا
وہ جب اعلان کرتے ہیں بجٹ کا
غریبوں کا ہی ہو جاتا ہے جھٹکا
بڑھے گی مہنگائی اور بڑھے گی
یہ ہے فیضان واشنگٹن پلٹ کا
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024