زندگی سے تنگ اور بھوک سے عاجز عوام پر ہاتھی کا پیر رکھ دیا گیا ہے۔ جی ہاں میں نئے مالیاتی بجٹ کی بات کر رہی ہوں۔ سانس لینا تو خیر پچھلے کچھ ماہ سے نہایت دشوار ہوہی چکا تھا ہر دوسرے روز بدھ ضروریات زندگی کی تمام اشیاء پر ہوشربا اضافے نے عوام کی چیخیں تو نکلوا ہی دی تھیں لیکن نئے بجٹ نے ان کا دم ہی نکال دیا ہے۔ ماچس کی ڈبی سے لے کر روزمرہ کی تمام اشیاء پر عوام پہلے ہی دن میں کئی بار ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ان تمام ٹیکسوں کی وصولی کے بعد مزید اور پھر مزید ٹیکسز کا بوجھ سمجھ سے بالا تر ہے۔ ہم بچپن سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ حکومت جو قرضہ جات لیتی ہے اس کا ہر پاکستانی قرض دار ہے۔ اس قرضہ کے تلے پاکستان کا بچہ بچہ مقروض بے سالوں گزر گئے اس کہانی کے پلاٹ پر تو کوئی فرق نہیں پڑا اگرچہ کردار بدلتے رہے اور بچہ بچہ مزید سے مزید مقروض ہوتا چلا گیا۔ لیکن موجودہ حکومت نے تو شاید اس ظلم وستم کا ڈراپ سین ہی کردیا ہے۔ ایسی ظالمانہ مہنگائی اور ایسے ایسے ٹیکسز لگا دئیے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ ویسے داد تو بنتی ہے کہ ایسے ایسے اداروں اور ایسی ایسی مد میں ٹیکسز لگائے گئے جن کی طرف اس سے پہلے کسی حکومت کا خیال تک نہ گیا ہوگا۔ لہٰذا تبدیلی بلاشبہ نظر آرہی ہے اور اس تبدیلی کے پیچھے عالی دماغ لوگوں کی سوچ بھی آشکار ہوتی ہے۔ کچھ دن پہلے وزیراعظم نے اپنی ایک تقریر میں کہا میں تمام پیسہ انہی لوگوں سے نکالوں گا۔ اپنی اپنی سوچ اور اپنا اپنا نظریہ ہے لیکن سچ بات تو یہ ہے کہ مجھے یہ انداز بیان ایک دھمکی کی طرح ہی لگا۔ لوگ بے چارے کیا کریں بیچاری عوام سے یاد آیا کہ ابھی بجٹ پیش ہوا ہے اگرچہ منظور نہیں ہوا۔ لیکن مارکیٹ میں اشیائے خورونوش کو اپنی من مانی قیمتوں کو گیارہ جون سے ہی فروخت کرنا شروع کردیا گیا ہے۔حد ہوتی ہے۔ یعنی ابھی تو صرف بجٹ پیش ہوا ہے۔ حکومت نے کوئی حکم جاری نہیں کیا۔ منظوری کا پروانہ آنا ابھی باقی ہے اور لوگوں نے ذاتی فوائد حاصل کرنے بھی شروع کردئیے۔ ایک طرف تو حکمران عوام پر ستم ڈھاتے ہیں اور دوسری طرف عوام کے اپنے کچھ خاص کاروبار ی گروہ باقی ماندہ عوام کو روندنے میں مصروف ہیں۔ ایک افراتفری کا سا سماں معلوم ہوتا ہے۔ کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے اور اس من مانی پر کوئی کسی کا احتساب نہیں کرتا۔حکومت کوئی ایسا ادارہ کیوں تشکیل نہیں دیتی جو ایسے کاروباری حضرات پر کڑی نگاہ رکھے اور ان کو اس من مانی پر سزائیں دے سکے۔ اگر کچھ اشیاء کی قیمتوں میں کمی آئی ہے تو مارکیٹ میں ان کے نرخ کم نہیں ہوئے بلکہ ان کو پہلی قیمت پر ہی خریدوفروخت کا سلسلہ بھی تاحال جاری ہے۔ اس جانب بھی کسی کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ مرے کو مارے شاہ مداروالی مداری جاری ہے۔ کسی کسی کو تو قانون حقیقی معنوں میں اندھا ہی نظر آتا ہے اور لاقانونیت کا راج دکھائی دیتا ہے۔ گزشتہ حکومت کی تقلید کرتے ہوئے اس بار بھی زراعت کے شعبے کو کلی طور پر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ جبکہ ملک کی ترقی کا زیادہ انحصار زراعت وصنعت سازی پرہی ہے۔ موجودہ مالی سال کیلئے کل قومی پیداوار میں اضافے کا ہدف چھ اعشاریہ تین فیصد مقرر کیا گیا۔ مگر صرف تین اعشاریہ تین فیصد کا اضافہ ہی ہوسکا۔ صنعتی شعبہ میں ترقی کا ہدف سات اعشاریہ چھ فیصد تھا لیکن صرف ایک اعشاریہ چار فیصد ہی ترقی ہوسکی۔ یہ لسٹ کچھ طویل ہوجائے گی۔ اکثر شعبہ جات میں ترقی کا یہی ریشو دیکھنے میں آرہا ہے۔ نئے بجٹ کے مطابق دفاعی بجٹ میں کوئی اضافہ نہ ہوگا۔ لیکن اس بار مزید اضافہ نہ کرنے کے باوجود دفاع کیلئے بارہ سو پچاس ارب روپے مختص کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ اس کے مقابلہ میں صحت، تعلیم اور پاپولیشن کنٹرول جیسے بنیادی شعبوں میں خرچے کے تناظر میں یہ بجٹ معمولی ہرگز نہیں ہے۔ موجودہ حکومت کے پاس ایک گھسا پٹا بہانہ بھی ہے کہ اگر ان سے سوال کیا جائے کہ موجودہ سال میں اقتصادی ترقی کے طے شدہ بنیادی اہداف کیوں حاصل نہ ہوسکے تو فوری طور پر ترجمان جواب دیں گے کہ جناب سابقہ حکومتوں کے کارنامے ہیں جو جاتے جاتے ہمیں ایسے اہداف تھما گئے ہیں جن کو پورا کرنا ممکن ہی نہ تھا۔ لیکن خیر اگلے سال یہ بہانہ بھی کسی کام نہ آئے گا کیونکہ اب کا بجٹ خالصتا پی ٹی آئیکا اپنا کارنامہ ہے۔ دیکھئے اس میں کون کون سے اہداف کس حد تک پورے ہوں گے۔ اگلے سال الزام دھرنے کیلئے کوئی دستیاب بھی نہ ہوگا۔ لوگوں نے خوف کی وجہ سے مارکیٹوں سے پیسہ اٹھا لیا ہے۔ موجودہ حکومت کی دھمکیوں، ٹیکسز اور نیب کے خوف نے لوگوں کو اپنا پیسہ چھپانے پر مجبور کردیا ہے۔ معیشت اس عمل سے مزید ڈانواں ڈول ہوچکی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کوئی ایسی عقلمندانہ حکمت عملی اختیار کی جاتی کہ لوگ اپنا جمع شدہ پیسہ بھی مارکیٹ میں انویسٹ کرنے کیلئے تیار ہوجاتیوزیراعظم نے کہا کہ آخری موقع ہے کہ ایمنسٹی سکیم کے تحت تیس جون تک رقوم کو جمع کروایا جائے نیز فرمایا کہ ابھی تک کسی نے ایک روپیہ بھی نہیں دیا۔ اب نجانے اس بیان پر ہنسنا چاہئے یا رونا چاہئے کہ اتنی کاوشوں ، دھمکیوں اور بہلاووں کے باوجود کسی نے ایک روپیہ تک کیوں نہیں دیا۔ کیا آپ اس میں ناکام ہوچکے ہیں؟ اپر گریڈ کی پانچ فیصد تنخواہ بڑھا کر پانچ فیصد ہی ٹیکس لاگو کردیا گیاہے۔ قہقہہ لگانے کو جی چاہتا ہے اور پچاس ہزار تنخواہ والوں پر بھی ٹیکس لاگو ہوگا۔ یعنی آپ کی نظر میں اس منہ توڑ مہنگائی کے دور میں پچاس ہزار اتنی بڑی رقم معلوم ہوتی ہے کہ ٹیکس کی زد میں آ جائے، کالم طویل ہوجائے گا لیکن ٹیکس کی طوالت میں احاطہ تحریر میں تفصیل سے لانا ناممکن ہوجائے گا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38