سلطان راہی کی وفات کے بعد انکی تعزیت کے لیے آنے والوں میں سے ایک اداکار نے کہا کہ ’’سلطان راہی دل کے بہت اچھے تھے،، ایک مزاح نگار نے لکھا کہ دل کے اچھے لوگ کبھی دل کے عارضے میں مبتلا نہیں ہوتے۔ ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ وہ ’’بل،، کے عارضے میں مُبتلا ہو جائیں۔ اور بل کے عارضے سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ بجٹ عوام دوست ہونا چاہئے۔ پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بجٹ کبھی بھی عوام دوست نہیں رہا۔ بجٹ تقریر ہمیشہ رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ اُس مزاح نگار نے یہ بھی لکھا کہ بجٹ تقریر کے دوران بجٹ پیش کرنے والا اچھا لگتا ہے کہ شاید کوئی اچھی نوید سنا دے۔ ان سے پوچھا گیا کہ اگر وہ خاموش ہو جائے تو جواب ملا کہ لوگ اچھے لگے ہیں۔ مولا بجٹ اور عوام دوست بجٹ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اول الذکر بجٹ تو ہر سال ہی پیش کیا جاتا ہے۔ دوم بجٹ کا احاطہ کرنے کے لیے مغربی ممالک کی پالیسیوں اور بجٹ کا احاطہ کرنا ضروری ہے۔ وہاں اگر کسی کے گھر میں ایک سپاہی بھی گھس جائے تو حکومت کے لیے مصیبت بن جاتی ہے اور کروڑوں روپے کا ہرجانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں کے لوگوں کی سیاسی آزادی اس اقتصادی ترقی سے وابستہ ہے جس کا پہلے بھی کوئی پرسانِ حال نہ تھا اور نہ اب ہے۔ پہلے بھی تھانے کچہریوں میں تذلیل ہوئی تھی اب بھی ہوتی ہے۔ رہی سہی کسر موجودہ حکومت کا پیش کردہ وہ بجٹ ہے جس کا تخمینہ 70 کھرب روپے سے زیادہ ہے۔ مہنگائی کا تناسب پچھلے پیش کئے بجٹوں سے زیادہ ہے۔ گھی دالیں، چینی ، گوشت ، دودھ، اور اشیائے خور و نوش کی چیزوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ چینی پر 17 % سیلز ٹیکس لگا کر عوام کی زندگیوں سے رہی سہی مٹھاس بھی چھین لی گئی۔ عمران خان نے قوم سے دو وعدے کئے تھے کہ وہ کرپٹ عناصر کو جیلوں میں ڈالیں گے اور دوسرے یہ کہ عوام کو مکمل ریلیف دیں گے لیکن صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ہاں خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والا عام شخص بھی جتنی بار چینی، ماچس، گھی، مرچیں نمک خریدتا ہے اتنی ہی بار حکومتِ پاکستان کو ٹیکس ادا کرتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ عمران خان کوجو معاشی ڈھانچہ ملا ہے وہ اس قدر کمزور ہے کہ آئی ایم ایف کے سہارے کے بغیر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ لیکن صدیوں سے منتظر ’’تبدیلی،، کے خواہاں لوگ بھی اس بات کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ مہنگائی کا مزید بوجھ برداشت کر سکیں۔ ماضی کے حکمرانوں کی شاہ خرچیوں نے صرف دس سال میں 24 ہزار ارب ڈالر قرضے کا پہاڑ کھڑا کر دیا۔ اب عمران خان کی سیاسی بصیرت کا امتحان ہے کہ وہ کس طرح اس پہاڑ کو سر کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ عمران خان نے اپنے خطاب میں یہ سوال کیا کہ قوم پر یہ قرض کیسے چڑھایا گیا تو اس کا سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ اقتدار کے لیے سیاستدان کچھ بھی کرتے رہے یہاں تک کہ عوام کی خدمت بھی ’’تاریخ گواہ ہے کہ جب حافظ شیرازی نے اپنے محبوب کے تل کے بدلے سمرقند اور بخارا دینے کی بات کی تو امیر تیمور نے طیش میں آ کر کہا کہ ہم نے بڑی مشکلوں اور قتل و غارت کے بعد یہ شہر فتح کئے اور آپ چلے ہیں محبوب کے تل کے بدلے میں سمرقند اور بخارا دینے ہماری گزشتہ حکومتوں نے بھی ’’محبوب کے تل،، کے بدلے نہ سہی ’’عوام کی خدمت،، کے بدلے قرضے لیے اور اتنا قرضہ لیا کہ عوام کو ہی خمیازہ بھگتنا پڑا۔ عوام کو اس بات سے غرض نہیں ہوتا کہ بجٹ میں کس مد میں کتنے پیسے رکھے گئے۔ پچھلے ادوار میں کیا ہوا۔ اُن کو دو وقت کی روٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بقول شاعر…؎
جس عہد میں لُٹ جائے فقیروں کی کمائی
اُس عہد کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے
اس وقت پاکستان میں گروتھ ریٹ انتہائی کم ہے جس کی شرح 12% ہے ۔ جرمنی 24 % ترکی 20 % انڈیا 18 %۔ حکومت کو گروتھ ریٹ میںاضافے کے ساتھ نیٹ ورک کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بار بار ٹیکسوں کا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر نہ پڑے اور چھ لاکھ شرح سالانہ ٹیکس کے ذریعہ اس کی جیبیں خالی کروا لی جائیں اور غیر تنخواہ دار طبقے پر چار لاکھ شرح سالانہ کے حساب سے ان سے انکے منہ کا نوالہ بھی چھین لیا جائے۔ اس پر طرہ یہ کہ ہماری کرنسی 30 % ڈی ویلیو ہونے سے ہماری ''cost of living'' 40 % تک پہنچ گئی ہے۔ عمران خان دل کے اچھے انسان ہیں وہ غریبوں کے دُکھ کو محسوس کرتے ہیں۔ وہ عوام کو غربت کے منحوس چکر سے نکالنے کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں صرف چالیس لاکھ لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں اور محصولات کی شرح آمدنی 16 % ہے۔ ب یہ اُن کی مخلصان کاوشوں پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح ٹیکس نیٹ بڑھاتے ہیں اور کس طرح لوگوں میں اعتماد پیدا کر کے ایمنسٹی سکیم کے مثبت اثرات وصول کرتے ہیں۔ اگر عوام کی بنیادی ضروریات زندگی کی ارزانی کی طرف توجہ نہ دی گئی ۔ اسپورٹ پروگرامز شروع نہ کئے گئے تو اُن کا ''Servival'' مشکل ہو جائے گا اور نہ ہی غربت سے چھٹکارا ملے گا چاہے اس کے لیے ہارورڈ یونیورسٹی کے معاشی ماہرین کی خدمات ہی کیوں نہ حاصل کی جائیں ۔ نتیجہ وہی رہے گا جو گزشتہ حکومتوں کے دور میں رہا ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024