سب سے پہلے میری طرف سے اپنے تمام قارئین کو عید مبارک ہو۔دعا گو ہوں کہ اللہ رب العالمین ہمارے پیارے وطن اور ہم سب کو اپنی امان میں رکھے آمین!
کلدیپ نئیر بھارت کے مشہور کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں۔انہوں نے کچھ عرصہ پہلے Relevance of Jinnahکے عنوان سے ایک زبردست کالم لکھا۔اس کالم کا پس منظر وہ ہندو تعصب تھاجس بنا پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر اتاری گئی تھی۔ کلدیپ نئیرنے ہندو مسلم تعلقات پر بڑا حقیقت پسندانہ تجزیہ پیش کیا ہے جسے قارئین کی خدمت میں پیش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ وہ اس وجہ سے کہ آجکل جنرل اسددرانی کی کتاب کا مسئلہ چل رہا ہے دوسرا بہت سے ہم وطن اکثر سوال کرتے ہیں کہ جب ہندو مسلم کئی صدیاں اکٹھے رہتے رہے۔ایک دوسرے کے ساتھ برادرانہ تعلقات تھے۔ ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک ہوتے تھے تو ہم اب بھارت کے ساتھ کیوں نہیں تعلقات بہتر کر سکتے؟بہت سے بھارتیوں نے بھی یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ اگر شمالی کوریا اور امریکہ عرصہ دراز کی دشمنی کے بعد بھی تعلقات میں بہتری لا سکتے ہیں تو پاکستان اور بھارت اپنے تعلقات میں دشمنی کیوں نہیں ختم کر سکتے؟ سوالات بڑے درست ہیں۔ ایسے ہی ہونا چاہیے تھا مگر’’ بنیا‘‘ ذہنیت کا کیا کیا جائے جس وجہ سے ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہوا تھا۔
کہتے ہیں بنیا بہت اچھا خدمتگار تو ثابت ہو سکتا ہے مگر بہت گھٹیا اور ظالم حاکم ہے۔ مسلمانوں کے دورِ حکومت میں ہندووںں کو مذہبی اور معاشی طور پر مکمل آزادی تھی۔ انکے پاس بڑی بڑی جاگیریں تھیں۔ کاروبار تھے۔بڑے بڑے عہدو ں پر متمکن رہے۔، مسلمان حکمران مذہب سے زیادہ اپنی حکمرانی میں دلچسپی رکھتے تھے۔ انہوں نے ہندووں کو قابو میں رکھنے کیلئے ہندو عورتوں سے شادیاں کیں۔لہٰذا ان حکمرانوں کے گھروں کا ماحول مسلمانوں سے زیادہ ہندوانہ تھا۔ اسی لئے ’’دین الہیٰ‘‘ جیسا مذہب بھی ایجاد کرنے کی ضرورت پیش آئی ۔مسلمانوں کے دورِ حکومت میں ہندئووں کو مسلمانوں پر برتری رہی۔برطانوی دورِ اقتدار میں ہندو وں کو موقع ملا تو انہوں نے مسلمانوں کیخلاف مزید پر نکالنے شروع کیے اور مسلمانوں کو ملیچھ قرار دے کر مسلمانوں کو شودر لیول پر لے آئے۔ہندووں نے انگریزی تعلیم حاصل کی اور مسلمانوں کی نسبت انگریزوں کے زیادہ قریب آگئے۔مسلمانوں کو مذہبی علما ء نے کفر کے نام پر انگریزوں سے دور رکھا۔ان کیلئے نہ ملازمتیں تھیں ،نہ کاروبار اور نہ جائیداد وغیرہ۔یوں مسلمان نہ صرف ہندووں کے نیچے دب کر رہ گئے بلکہ معاشی طور پر بھی مفلوک الحال ہو گئے۔ مسلمان اس پوزیشن میں ہی نہ تھے کہ ہندووں سے لڑ سکیں ۔ہندووں نے مختلف انداز سے مسلمانوں کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا۔ انگریزوں کے سخت نظم و ضبط کی وجہ سے گو ظاہری طور پر امن و امان قائم رہا لیکن اندورنی طور پر ہندو مسلمانوں کے سخت خلاف تھے۔ 1947میں مسلمانوں نے خوشی سے اپنے علاقوں سے ہجرت نہیں کی تھی بلکہ انہیں پتہ تھا کہ اگر وہ وہاں سے نہ نکلے تو موت انکا مقدر ہو گی۔ہندو بہت بپھرے ہوئے تھے۔
وہ علاقے جو بعد میں پاکستان بنے ملک کی80فیصد پٹ سن اور کپاس ان علاقوں میں پیدا ہوتی تھی لیکن مسلمانوں کی بد قسمتی کہ پٹ سن اور کپاس کی تمام فیکٹریاں ہندو آبادی والے علاقوں میں تھیں اور ہندو مالکان کے تسلط میں تھیں ۔تقسیم ہند کے وقت یہ تمام فیکٹریاں بھارت کے پاس چلی گئیں ۔اس سے مسلمانوں کی زبوں حالی اور بے بسی کا انداز ہ لگایا جا سکتا ہے۔ ملک میں اسوقت کل 873کاٹن ملز تھیں جن میں سے کل سولہ پاکستان کے علاقے میں واقع تھیں۔ مسلمانوں کو جب بھی پیسے کی ضرورت پڑتی تو وہ سود پر پیسے دینے والے بنیئے کے پاس جاتے جو انہیں بہت ہی زیادہ سود پر ادھار دیتا۔مسلمان چونکہ ان پڑھ تھے ۔سود کی باریکیاں نہیں سمجھتے تھے تو یوں بنیئے انہیں انکی جائیدادوں سے محروم کر دیتے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ اتنا سنگین ہو گیا کہ مسلمان زمینوں سے بھی محروم ہو گئے۔لہٰذا’’ کاشتکار‘‘ (مسلمان) اور ’’غیر کاشتکار )ہندو بنیئے کا قانون بنانا پڑا اور غیر کاشتکاروں کو زمین اپنے نام کرانے پر پابندی لگا دی گئی۔ہندو مسلمانوں سے ٹکوں میں جنس خریدتے اور ہزاروں میں بیچتے۔نتیجتاً تمام دولت ہندوں کے ہاتھ میں جمع ہو گئی۔تقسیم ہند کے وقت لاہور شہر با لکل بھوت شہر بن گیا ۔تمام بازار اور دوکانیں بند ہو گئیں۔کاروبار ختم ہو گیا۔ریلوے ، ریلوے سٹیشن اور ٹیلی گراف وفاتر وغیرہ سب خالی ہوگئے۔کیونکہ ہندو اور سکھ جو یہ سب کاروبار کرتے تھے یہاں سے چلے گئے ۔کافی محنت اور کوشش سے حالات بحال ہوئے ۔ہندو روایات کے مطابق مسلمان ملیچھ تھے اس لئے کوئی ہندو ان سے ہاتھ نہیں ملاتا تھا۔گنگا دھر تلک اور مدن موہن ملاویہ جیسے اعلیٰ ہندو لیڈر بھی جناح کے ساتھ یا جناح کے گھر سے کھانا نہیں کھاتے تھے۔اگر کسی ہندو سے مسلمان کا ہاتھ یا کپڑا چھو جاتا تھاتو وہ ناپاک ہو جاتا تھا اور غسل کر کے اپنے آپکو پاک کرنا ضروری سمجھا جاتا۔ اگر کسی ہندو کے گھر کوئی مسلمان چلا جاتا تو سارا گھر ناپاک سمجھا جاتا اور دھو کر پاک کیا جاتا۔ ہندو دوکاندار مسلمانوں کو لکڑی کی پھٹی پر سودا رکھ کر اسکی جھولی میں پھینکتے تھے۔ ہاتھ سے پکڑانا گنا ہ سمجھتے تھے۔ ہندو مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی نہیں کھاتے تھے نہ ہی انکے ہاتھ کا پکا ہوا کھاتے ۔ ہندووں کیلئے علیحدہ ہاسٹلز اورعلیحدہ کھانا پکانے کا انتظام یہاں تک کہ پانی کا بھی علیحدہ بندوبست ہوتا تھا ۔ہندو پانی یا پانی کا برتن بھی اگر غلطی سے کسی مسلمان سے چھو جاتا تو وہ ناپاک ہو جاتا ۔ ہندو علیحدہ محلوں میں رہتے تھے اور کسی مسلمان کو ہندومحلے میں جانے کی اجازت نہ تھی۔یہ تھے وہ حالات جو علیحدہ پاکستان کا موجب بنے۔ پڑھے لکھے ہندو اور مسلمان ایک جیسامغربی لباس پہنتے ہیں جس سے انکا ایک جیسے ہونے کا تاثر ملتا ہے جبکہ حقیقت با لکل اسکے برعکس ہے ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024