آج کا لا باغ ڈیم کی مخالفت پاکستان کی مخالفت ہے۔ بھارت عالمی فورمز پر یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان صوبوں کے اختلافات کے باعث کوئی ڈیم نہیں بنا سکتا۔ لہٰذا پاکستان کو بھارت کی جانب سے دریا چناب اور دریا جہلم پرڈیمز بنانے پر اعتراضات نہیں ہونے چاہئیں۔ پاکستان نے اس دلیل کو مسترد کر دیا تھا۔ ڈیم کی تعمیر میں زیرآب آنیوالی قابل کاشت اراضی ستائیس ہزار پانچ سو ایکڑ میں سے چوبیس ہزار پانچ سو ایکڑ پنجاب اور تین ہزار ایکڑ صوبہ خیبر پختونخوا کی ہو گی۔ اس سلسلہ میں چاروں صوبوں کے چیف جسٹس صاحبان کی کمیٹی بھی بنائی گئی کہ ڈیم کا ہر لحاظ سے جائزہ لے۔ کمیٹی نے تمام صوبوں کے اعتراضات سننے کے بعد ڈیم کے حق میں فیصلہ دیا۔ سندھ کے چیف جسٹس بھی اس میں شامل تھے۔ جنرل فضل حق کی مخالفت کی باوجود اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو نے کالا باغ ڈیم کی تعمیرکیلئے اپنی کوشش جاری رکھی۔ بعد میں وہ خود فارغ ہو گئے۔ صوبہ سرحد سے بیانات کے بعد سندھ کے بڑے وڈیروں اور نامور سیاستدانوں نے بھی تقلید کی۔ وجہ یہ تھی کہ دریائے سندھ کے ساتھ کچے کے علاقے کی زمینوں پر ناجائز قبضے کی صورت دریائے سندھ کی زرخیز پٹی سے وہ مفت فائدہ اٹھا رہے تھے۔ کالاباغ ڈیم بننے کے بعد مربوط نہری نظام کے ذریعے حساب کتاب سے پانی مہیا ہونا تھا۔ جس سے اس خطے کے وڈیرے، سیاست دانوں کے ناجائز قبضے ختم ہو جاتے۔ محمد خان جونیجو کے بعد بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں کالا باغ ڈیم کے حوالے سے 1989ء میں سندھ حکومت نے اعتراض کیا کہ ڈیم کی تعمیر سے پہلے صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاہدہ ضروری ہے۔ بلوچستان نے بھی اسکی تائیدکی۔ نوازشریف حکومت میں چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ پانی کی تقسیم کے معاہدہ پر 16 مارچ 1991ء کو ایک فارمولے پر متفق ہو گئے اور کالا باغ ڈیم کے تعمیر کیلئے راہ ہموار ہو گئی۔ معاہدہ میں تمام وزراء اعلیٰ کو اپنی صوابدید پر نمائندہ وزیر کا انتخاب کرنے کا موقع دیا گیا۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں کے ساتھ شاہ محمود قریشی (حال مقیم پی ٹی آئی)، سندھ کے وزیراعلیٰ جام صادق علی کے ساتھ انکے وزیر قانون مظفر شاہ، سرحد کے وزیراعلیٰ میر افضل خان کے ساتھ انکے وزیر خزانہ نوابزادہ محسن علی خان (یہ بھی پی ٹی آئی میں تھے، آخری اطلاعات کے مطابق اب اے این پی میں ہیں) اور بلوچستان کے وزیراعلیٰ میر تاج محمد جمالی کے ساتھ انکے وزیر داخلہ ذوالفقار مگسی نے معاونت کے فرائض انجام دئیے۔ پانی کی تقسیم کے معاہدہ کو مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے 21 مارچ 1991ء کے اجلاس میں باقاعدہ منظور کیا۔ اس تاریخ سازمعاہدے میں چاروں صوبوں کے درمیان اعتماد کی بہترین فضا قائم ہوئی۔ دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں پر تمام ممکنہ ڈیمز اور آبی ذخائر کی تعمیر کی اجازت دی گئی۔ مشترکہ مفادات کونسل نے آٹھ ارکان کی کمیٹی بنائی جس میں سے سات ارکان نے ڈیم کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے اسے پاکستان کیلئے نہایت مفید قرار دیا۔ 1991ء میں پانی کی تقسیم اور کالا باغ ڈیم منصوبے کی منظوری کے بعد وزیراعلیٰ صوبہ سرحد میر افضل خوش نظر آ رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے صوبہ سرحد کی اٹھارہ لاکھ ایکڑ اراضی آبپاشی کے ذریعے کاشت ہوتی تھی۔ اس معاہدے کے تحت ہماری مزید نو لاکھ ایکڑ اراضی سیراب ہو گی جس سے گندم اور دیگر فصلوں کی پیداوار میں زبردست اضافہ ہو گا۔ اے این پی کے قائد خان عبدالولی خان نے کہا تھا میں پانی کے معاہدے سے مکمل مطمئن ہوں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ صوبوں نے اپنے اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا۔ صوبہ سندھ کے وزیراعلیٰ جام صادق علی کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کی بدولت ہمیں ساڑھے چارملین ایکڑ مزید پانی ملے گا۔ اے این پی کے موجودہ رہنما اسفند یار ولی اس ڈیم کی سخت مخالفت کرتے ہوئے یہ تک کہہ چکے ہیں کہ یہ ڈیم ہماری لاشوں پر بنے گا اور پھر پاکستان نہیں رہے گا۔ (خاکم بدہن)
صوبہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ کاکہنا تھا کہ تربیلا اور منگلا ڈیم سے چھ لاکھ ایکڑ اراضی سیراب کر رہے تھے۔ اس معاہدے کے تحت بلوچستان کی سولہ لاکھ ایکڑ اراضی سیراب ہو گی۔ بعدازاں ان رہنماؤں کی اکثریت محض سیاسی یا ضرویات کے تحت کالا باغ ڈیم کی مخالفت پر اتر آئی۔ لاہور ہائی کوٹ نے مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں کی روشنی میں وفاقی حکومت کو کالا باغ ڈیم کی تعمیر جلد شروع کرنے کا حکم دیا تھا۔ مشترکہ مفادات کونسل نے 1991ء اور 1998ء میں باقاعدہ تمام صوبوں کے اعتراضات دور کرتے ہوئے اتفاق رائے کیا تھا کہ ڈیم کی جلد تعمیر کی جائے۔
برطانوی صحافی ایلس الینیا دریائے سندھ کے آغاز تا اختتام، دو ہزار میل مشکل سفر کے تجربات ومشاہدات پر مبنی اپنی کتاب ’’ایمپائرز آف دی انڈس‘‘ میں کالا باغ ڈیم پر اعتراضات کے بارے میں طنزا لکھتی ہیں ’’کچھ قنوطی پاکستانی تو اس حد تک پیشگوئی کرتے ہیں کہ اس منصوبے سے پاکستان کی پنجابی فوج کا سیاست اور پانی دونوں پر غلبہ قائم ہو گا جس سے ملک میں ایک اور خانہ جنگی چھڑ جائیگی۔‘ واپڈا کے چیئرمین اور صوبہ خیبر پختونخوا کے سابق وزیراعلیٰ شمس الملک نے ڈیم کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر ان سے بڑی اتھارٹی اور سند کوئی نہیں۔ ایسی سند کہ ایک بار ان کو مرحوم عبدالولی خان نے بلا کر کہا کہ تم پٹھان ہو کر کالا باغ ڈیم کی حمایت کرتے ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ ڈیم خود میرے صوبے کیلئے نہایت ضروری ہے۔ (ختم شد)