عدالتی حکم پر مشرف کا ملک واپس آنے سے انکار اور سپریم کورٹ میں انہیں ریلیف دینے والے عبوری حکم کی واپسی
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف متعینہ ڈیڈلائن پر گزشتہ روز سپریم کورٹ کے روبرو پیش نہ ہوسکے۔ اس سلسلہ میں انکے وکیل کی جانب سے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا گیاکہ انکے مؤکل کیلئے فوری طور پر ملک واپس آنا ممکن نہیں کیونکہ انکی خرابی ٔ صحت کے باعث انکے معالجین نے انہیں سفر کرنے کی اجازت نہیں دی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم عدالت عظمیٰ کے بنچ کی جانب سے گزشتہ روز حکم دیا گیا تھا کہ پرویز مشرف جمعرات کے روز بعداز دوپہر دو بجے تک عدالت میں پیش ہو جائیں‘ بصورت دیگر انہیں انتخاب لڑنے کیلئے دی گئی اجازت واپس لے کر ان کیخلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائیگی۔ دوران سماعت فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مشرف خود کو کمانڈو کہتے ہیں‘ وہ سیاست دانوں کی طرح ’’میں آرہا ہوں‘‘ کی گردان مت کریں‘ وہ کمانڈو ہیں تو واپس آکر قانون‘ عوام اور عدلیہ کا سامنا کریں۔ دوران سماعت پرویز مشرف کے وکیل نے کہا کہ انکے مؤکل بغاوت کے مقدمے کا سامنا کرنے کو تیار ہیں‘ انہیں جان کے تحفظ کی ضمانت دی جائے۔ اس پر فاضل چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آیا آپ سپریم کورٹ سے یہ یقین دہانی چاہتے ہیں کہ ان کیخلاف بغاوت کی کارروائی نہ کی جائے۔ ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ پرویز مشرف واپس آئیں‘ ہم انہیں تحفظ دینگے مگر ہم لکھ کر ضمانت دینے کے پابند نہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مشرف کو کس بات کا تحفظ چاہیے‘ وہ کس خوف میں مبتلا ہیں۔ وہ خود کو کمانڈو کہتے ہیں تو اتنا بڑا کمانڈو خوف کیسے کھا گیا۔ اتنے بڑے ملک پر مارشل لاء لگاتے وقت تو انہیں خوف نہیں آیا تھا۔
فاضل چیف جسٹس نے باور کرایا کہ مشرف تو خود کہتے تھے وہ کئی مرتبہ موت کے منہ سے بچے لیکن خوف نہیں کھایا۔ اس پر مشرف کے وکیل نے کہا کہ سابق صدر کو رعشہ کا عارضہ لاحق ہے‘ ان کا میڈیکل بورڈ ہونا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مشرف ایئرایمبولینس میں آجائیں‘ ہم میڈیکل بورڈ بنا دیتے ہیں۔ اگر انہیں رعشہ کا مرض لاحق ہے تو وہ انتخابات میں مُکا کیسے دکھائیں گے‘ وہ آئیں اور غداری کے مقدمہ کا سامنا کریں ورنہ قانون کے مطابق کارروائی کرینگے اور اس بات کا جائزہ عدالت لے گی کہ مشرف کو واپس جانے کی اجازت کب دینی ہے اور ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنا ہے یا نہیں۔ فاضل عدالت نے باور کرایا کہ مشرف کو باہر جانے کی اجازت سپریم کورٹ نے نہیں دی تھی بلکہ انہیں حکومت کی طرف سے اجازت دی گئی اور حکومت نے ہی ان کا نام ای سی ایل سے نکالا تھا۔ اس سلسلہ میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو غلط انداز میں پیش کیا گیا۔ فاضل چیف جسٹس نے باور کرایا کہ مشرف واپس نہیں آئینگے تو انکے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال نہیں ہونے دی جائیگی۔ دوسری جانب مشرف کیخلاف آئین سے غداری کے مقدمہ کی سماعت کیلئے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس یاورعلی کی سربراہی میں خصوصی عدالت قائم کردی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں وفاقی وزارت قانون و انصاف نے دو رکنی خصوصی عدالت کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ اس بنچ کے دوسرے رکن سندھ ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس نذراکبر ہونگے۔ مشرف کیخلاف غداری کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے مسلم لیگ (ن)‘ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف ہم آواز ہوگئی ہیں جن کی طرف سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ مشرف ملک واپس نہ آئیں تو ان کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
ہمارا یہ المیہ ہے کہ ماورائے آئین اقدام کے تحت منتخب جمہوری حکومتوں اور عوامی مینڈیٹ کی حامل اسمبلیوں کو گھر بھجوا کر ملک میں جرنیلی آمریت مسلط کرنیوالے طالع آزما جرنیلوں کو آج تک قانون و انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔ پہلے دو جرنیلی آمروں ایوب خان اور یحییٰ خان کے ادوار تک آئین کی دفعہ 6 کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ 1956ء کے آئین میں یہ شق شامل نہیں تھی جبکہ 1962ء کا آئین ایوب خان کا اپنا تشکیل دیا گیا آئین تھا جس میں انکی ذات کو ہی امور حکومت و مملکت کا محور بنایا گیا اور اسکے تحت ملک میں پارلیمانی جمہوری نظام کی بجائے آمرانہ صدارتی نظام مسلط کیا گیا تاہم جنرل ضیاء الحق کی جانب سے ماورائے آئین اقدام کے تحت جمہوریت کی بساط الٹانے سے پہلے تک ملک میں 1973ء کا وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام پر مبنی آئین نافذ ہوچکا تھا جس میں دفعہ 6 کے تحت آئین پاکستان کو توڑنے اور آئین کے تحت قائم سسٹم کو ماورائے آئین اقدام کے تحت ڈی ریل کرنے کے اقدام کو غداری کا سنگین جرم قرار دیا گیا اور اسکی سزا موت متعین کی گئی۔ جنرل ضیاء الحق اپنے 5 جولائی 1977ء کے اقدام کی بنیاد پر اس جرم کے مرتکب ہوئے مگر انکے جبر کے دور میں پیپلزپارٹی سمیت کسی جمہوری قوت اور ادارے کو ان کیخلاف آئین کی دفعہ 6 کے تحت کارروائی کیلئے مجاز فورم سے رجوع کرنے کی جرأت نہ ہوسکی۔ اسی طرح چوتھے جرنیلی آمر پرویز مشرف نے بھی ماورائے آئین اقدام کے تحت منتخب اسمبلیوں اور منتخب سول حکومت کو گھر بھجوا کر 9 سال تک ملک پر یکاوتنہاء حکمرانی کی مگر 2002ء میں آئین بحال ہونے کے باوجود کسی بھی سیاسی جمہوری قوت کی جانب سے ان کیخلاف آئین کی دفعہ 6 کے تحت غداری کے جرم کی کارروائی کیلئے عملی اقدام نہ اٹھایا گیا۔ مشرف کے جانے کے بعد پیپلزپارٹی نے 2008ء کے انتخابات کے مینڈیٹ کے تحت پانچ سال تک ملک پر حکمرانی کی مگر اسکی قیادت کی جانب سے مشرف کیخلاف آئین کی دفعہ 6 کے تحت کارروائی عمل میں لانا تو کجا‘ اپنی پارٹی کی قائد بے نظیر بھٹو کے قتل کا مقدمہ درج کرانے کی بھی ہمت نہ ہوئی اور پھر مشرف کو پورے پروٹوکول کے ساتھ ملک سے باہر بھجوا دیا گیا حالانکہ ان کیخلاف نواب اکبر بگتی کے قتل اور جامعہ حفصہ اسلام آباد میں اپریشن کیخلاف فوجداری مقدمات درج ہوچکے تھے۔ مشرف اسکے باوجود ملک سے باہر بیٹھے منتخب سول سیٹ اپ کی بھد اڑاتے رہے۔
جب 2013ء کے انتخابات کے مینڈیٹ کے تحت میاں نوازشریف اقتدار میں آئے تو انہوں نے مشرف کیخلاف آئین کی دفعہ 6 کے تحت کارروائی عمل میں لانے کا اعلان کیا مگر انہوں نے اپنے اقتدار کے پہلے دو سال تک اس بارے میں کوئی پیش رفت نہ کی جبکہ مشرف اس دوران للکارے مارتے ہوئے ملک واپس آگئے۔ جب انکی جانب سے آئین کی دفعہ 6 کے تحت کارروائی کے حوالے سے حکومت کو کھلم کھلا چیلنج کیا جانے لگا تو وزیراعظم نوازشریف نے طوہاً وکرہاً ان کیخلاف آئین کی دفعہ 6 کی کارروائی کیلئے سپریم کورٹ میں ریفرنس بھجوادیا اور یہ طرفہ تماشا ہے کہ یہ ریفرنس منتخب سول سیٹ اپ کو گھر بھجوانے سے متعلق مشرف کے 12؍ اکتوبر 1999ء کے اقدام کے بجائے انکے 3؍ نومبر 2007ء کے اقدام کے حوالے سے تیار کیا گیا جس کے تحت انہوں نے دوسری بار آئین توڑا اور ملک میں ایمرجنسی اور پی سی او کا نفاذ کیا۔ اس ریفرنس کی سماعت کیلئے خصوصی عدالت کی تشکیل کا مرحلہ بھی طویل عرصہ بعد طے ہوا اور جب خداخدا کرکے اس ریفرنس کی سماعت کی نوبت آئی اور مشرف کی خصوصی عدالت میں پیشی کا مرحلہ آیا تو مشرف عدالت جاتے جاتے راستے ہی میں پمز ہسپتال پہنچ گئے جہاں ان کا عارضۂ قلب ظاہر ہوا اور پھر انکی میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر انہیں علاج معالجہ کیلئے ملک سے باہر جانے کی استدعا پر مبنی درخواست آگئی جو سپریم کورٹ میں سماعت کیلئے پیش ہوئی۔ اس دوران ملک میں آئین‘ قانون و انصاف کی عملداری کی جو کیفیت بنی وہ ہماری عدالتی اور سیاسی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ عدالت نے مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے یا نہ نکالنے کا معاملہ حکومت کی صوابدید پر چھوڑا اور پھر چودھری نثار علی خاں کی وزارت داخلہ کے ماتحت ان کا نام یکایک ای سی ایل سے نکالا گیا اور انہیں پمز سے ایئرایمبولینس میں منتقل کردیا گیا جو پہلے ہی انہیں ملک سے باہر لے جانے کیلئے تیار کی جاچکی تھی۔ اسکے بعد سے اب تک کے تین سال کے عرصہ کے دوران مشرف بیرون ملک رنگین زندگی گزارتے اپنی سیاست چمکاتے رہے ہیں جبکہ انہوں نے 2018ء کے انتخابات میں حصہ لینے کا بھی اعلان کردیا اور کراچی میں انکے ایماء پر کاغذات نامزدگی بھی داخل کرادیئے گئے جو متعلقہ ریٹرننگ افسر نے مسترد کئے اور سندھ ہائیکورٹ نے ریٹرننگ افسر کے فیصلہ کو برقرار رکھا تو مشرف کے وکلاء نے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ فاضل عدالت عظمیٰ نے اس کیس کی سماعت کے دوران مشرف کو ملک واپس آکر اپنے کاغذات نامزدگی داخل کرانے کی عبوری اجازت دی تو عدالت عظمیٰ کے اس فیصلہ کو مختلف حوالوں سے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ مشرف کی جانب سے واضح طور پر ملک واپس آنے کا عندیہ دیا جانے لگا‘ تاہم گزشتہ روز اس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس سپریم کورٹ کی جانب سے مشرف کی ذات کے حوالے سے جو ریمارکس دیئے گئے اور انہیں باور کرایا گیاکہ وہ کمانڈو ہیں تو ملک واپس آکر اپنے خلاف غداری کے کیس کا سامنا کریں۔ اسکی بنیاد پر مشرف کی ملک واپسی کا امکان پھر معدوم ہوگیا۔ اب فاضل عدالت عظمیٰ نے مشرف کے مقررہ ڈیڈ لائن تک عدالت میں پیش نہ ہونے کے باعث انہیں کاغذات نامزدگی داخل کرانے کی اجازت سے متعلق اپنا عبوری حکمنامہ بھی واپس لے لیا ہے۔ اس طرح انکی جانب سے داخل کرائے گئے کاغذات نامزدگی سندھ ہائیکورٹ کے فیصلہ کے تحت دوبارہ کالعدم ہوگئے ہیں۔
اب یہی موقع ہے کہ مشرف کے معاملہ میں آئین‘ قانون اور انصاف کی عملداری ہوتی ہوئی دکھائی جائے اور انہیں جیسے بھی ہو‘ قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ اگر آئندہ کیلئے کسی کے ذہن سے ماورائے آئین اقتدار کا خناس نکالنا مقصود ہے تو پھر اس کیلئے مشرف غداری کیس کو بہرصورت منطقی انجام تک پہنچانا ہوگا۔ اس کیس کی دوبارہ سماعت کیلئے اب نئی خصوصی عدالت تشکیل دی جاچکی ہے اس لئے توقع رکھی جانی چاہیے کہ مشرف کو آئین‘ قانون اور انصاف کی عملداری میں تاریخ سے سبق سیکھنے والی عبرت کی مثال بنایا جائیگا۔ بصورت دیگر ملک میں آئندہ بھی آئین سے کھلواڑ روکا نہیں جا سکے گا۔