آجکل وہ خواتین و حضرات باقاعدہ احتجاج کیلئے مظاہرے کر رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سی خواتین اور حضرات کو میں جانتا ہوں، جو اپنی پارٹی اور اپنے پارٹی لیڈر کیلئے بہت کچھ کرتے رہے ہیں ان میں سے ہر عورت مرد کا نام نہیں لکھ سکتا۔
البتہ ن لیگ کے چودھری نثار کو ٹکٹ نہ دینا سیاسی ہٹ دھرمی اور انتقامی کارروائی ہے تاکہ کوئی آدمی اپنی پارٹی سے کسی بات پر کوئی اختلاف نہ کر سکے۔ پارٹی لیڈر کسی فوجی صدر سے کم ڈکٹیٹر نہیں ہیں یہ بات اب ممبران اسمبلی زیادہ کرتے ہیں کہ سیاسی پارٹیوں میں کوئی جمہوریت نہیں ہے اس سے ن لیگ کو فائدہ نہیں ہوگا بلکہ نقصان ہوگا۔ چودھری نثار نے جب بھی الیکشن لڑا کامیاب ہوئے۔کئی الیکشن میں آزاد امیدوار کے طور پر چودھری صاحب میدان میں اترے۔ میں ان کا معترف ہوں ایسے لوگ سیاسی پارٹیوں میں نہ ہونے کے برابر ہیں ن لیگ میں تو کوئی بھی نہیں ہے۔
کوئی جواز ہے کہ چودھری نثار کو ٹکٹ نہ دیا جائے۔ چودھری صاحب کی بڑی پرانی رفاقت نوازشریف سے ہے مگر ان کی دوستی شہبازشریف سے ہے یہ معاملہ بھی کھٹائی میں پڑتا دکھائی دیتا ہے۔
ٹکٹوں کے حصول کیلئے جو شورو غل مچا ہے وہاں ایک معزز اور محترم خاتون ہے جس نے ٹکٹ کیلئے درخواست ہی نہیں دی جبکہ وہ دو دفعہ ن لیگ کی ممبر اسمبلی کے طور پر نمائندگی کر چکی ہیں اب بھی وہ خواتین کیلئے اس سلیکشن بورڈ کی ممبر تھی جو ٹکٹ تقسیم کرنے کیلئے بنایا گیا تھا ۔ عارفہ خالد ایک باوقار اور قابل اعتبار خاتون ہیں۔ کاش عورتیں ایسی ہی ہوتیں کم از کم اسمبلی میں تو ہوتیں۔
اس سے شہبازشریف کو بہت دکھ ہوا اور وہ تھوڑے سے خفا بھی ہوئے عارفہ خالد نے وضاحت کی کہ اس نے یہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو مناسب وقت نہیں دے سکیں اپنے بچوں اور اپنے گھر کو مسلسل نظر انداز کیا جو بیرون ملک رہتے ہیں۔ اس سال تک اپنی پارٹی کی خدمت کی ہے اور آئندہ بھی اس کیلئے حاضر ہوں وہ شہبازشریف کی بہت معترفین ہیں اور مشکور بھی ہیں۔ عارفہ کہتی ہیں کہ شہبازشریف نوازشریف سے بہت مختلف لیڈر ہیں اور وہ اپنے بڑے بھائی کی بہت عزت کرتے ہیں جس سے بہت فائدہ ہوا ہمیں تو اس کا پتہ نہیں شاید وہ جانتے ہیں مجھے تو لگتا ہے کہ شریف فیملی کی سیاست ختم ہو رہی ہے اب گیند شہبازشریف کی کورٹ میں ہے وہ مسلم لیگ (ن) کے صدر ہیں مگر ہوتا وہی ہے جو نوازشریف چاہتے ہیں۔ نوازشریف نااہل ہونے کے باوجود اپنی بحالی کیلئے مہم چلا رہے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ن لیگ کے جیتنے کے بعد میں اہل ہو جائوں گا۔
ایک آدمی اور بھی ہے۔ عبدالغفور ممبر اسمبلی رہ چکے ہیں۔ ان کا گھر بھی رائے ونڈ میں ہے وہ اچھے دل کے آدمی ہیں۔ شریف فیملی کے پرانے خدمت گزار ہیں اور اعتماد والے پینڈو روایت کے آدمی ہیں۔
ٹکٹوں کی تقسیم پر اپنی ہی پارٹی میں دنگل لگ گئے ہیں۔ ہر دفعہ کچھ نہ کچھ ہوتا ہے مگر اس بار تو حد ہوگئی ہے۔ ٹکٹ اس طرح بانٹے جا رہے ہیں۔ جیسے کوئی اندھا ریوڑیاں بانٹتا ہے۔
انھا ونڈے ریوڑیاں
مڑمڑ اپنیاں نوں
ہمیں عارفہ خالد کا ٹکٹ کے لئے درخواست نہ کرنا بہت اچھا لگا مگر چودھری نثار اور چودھری عبدالغفور کو ٹکٹ نہ ملنا بہت افسوسناک ہے۔
اب تک بات ن لیگ کی بے قاعدگیوں سے باہر نکلی۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ ہم نے 90 فیصد ٹکٹ بالکل ٹھیک دئیے ہیں۔ معاملہ صرف 10 فیصد کا ہے۔ اس کے لئے بھی متاثرین اورمعترضین کو مطمئن کریں گے۔ میرے خیال میں عائشہ گلا لئی کو بھی تحریک انصاف ٹکٹ دے دیتی تو تحریک انصاف واقعی بڑی سرخرو ہوتی اور عائشہ اگر ہار جاتی تو اور معاملہ عمران خان کے لئے سودمند ہوتا۔
ایک جملہ غیر معترضہ ہے۔ ن لیگ کے دو امیدواروں کی درخواست کے لئے عجب دلچسپ سیاسی صورتحال ہے۔ چودھری نثار اور عارفہ خالد نے ٹکٹ کے لئے درخواست نہ دی مگر دونوں کا معاملہ مختلف ہے۔ چودھری نثار کو درخواست دینے کے مطالبے کا مقصد اسے زیر کرنا ہے۔ مگر چودھری صاحب زیر و زبر تو ہو سکتے ہیں مگر زیر نہیں کئے جا سکتے۔
ایک جماعت اسلامی ہے اور ق لیگ ہے جس کے کارکنان نے ٹکٹ نہ ملنے پر شور نہیں مچایا۔ یہ ایک کریڈٹ کی بات ہے ورنہ کارکنوں اور حقداروں کو ٹکٹ نہ ملنے پر احتجاج ہوا ہے۔یہ واقعی ڈس کریڈٹ ہے ہمارے سیاسی گرو کریڈٹ اور ڈس کریڈٹ ایک ہی شے تصور کرتے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024