عدالت کا احترام سر آنکھوں پرلیکن وزیر اعظم ہاﺅس سے پیغام آچکا ہے کہ وزیر اعظم پاناما کیس سے سر خرو ہو کر نکلیں گے.... تو پھر عدالت کا منہ دیکھنے کی ضرورت کیا ہے سرکار کو سر خرو ہی سمجھو۔ ہو جائے مٹھائی کا جشن ایک بار پھر....؟لیکن ٹھہریں.... سرخرو کی مٹھائی نوش فرمانے سے پہلے لفظ سر خرو پر غورو خوض تفکر و تدبر اور مراقبہ کر لیا جائے۔ حکمران کا ملکی خزانہ ملک و قوم کی دولت سرکاری تحائف و مراعات وغیرہ سے خواہ معمولی سی شے میں خیانت و بد دیانتی کا حساب پروردگار کی عدالت عالیہ میں ہو گیاتو سر خرو لفظ کی لگ سمجھ جائے گی۔ ایک شہری نے بھی حاکم کے خلاف گواہی دے دی تو سرخرو لفظ کی لگ سمجھ جائے گی۔ دنیا کی عدالت سے وردی والے اور سوٹ ٹائی والے سب صاف نکل جاتے ہیں کہ نظام ہی کرپٹ ہے۔ اوپر سے نیچے تک ضمیر بک رہے ہیں اور جو بک نہیں سکتے وہ خود کو انصاف سے الگ کر لیتے ہیں۔ کرپشن کلچر میں سر خرو کا لیبل لگا لینا حیرت کی بات نہیں۔ لیکن ایک پیسے میں بھی ہیرا پھیری ثابت ہو گئی تو اللہ کی عدالت میں یہ سارے مسٹر اور مس سرخرو مجرم چور ڈاکو بد دیانت کہلائے جائیں گے۔بڑی عدالت کے حساب و انصاف سے عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ جیسے عادل بھی کپکپا رہے ہیں اور زندگی میں خود کو کبھی سر خرو نہ سمجھا بلکہ اہل خانہ کے حوالہ سے باز پرس سے بھی خوفزدہ رہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کچھ اونٹ خریدے اور سرکاری چراگاہ میں چرنے کے لئے بھیج دیئے، فربہ ہو گئے تو فروخت کرنے کے لئے بازار لے گئے۔ سیدنافاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے بازار میں دیکھا تو دریافت کیا یہ فربہ اونٹ کس کے ہیں؟ بتایا گیا عبداللہ بن عمر کے ہیں۔ امیر المومنین نے انہیں طلب کیا اور کیفیت معلوم کی۔ انہوں نے عرض کیا میں نے انہیں خریدا اور چراگاہ میں بھیج دیا، اس سے جس طرح دیگر مسلمانوں کو فائدہ اٹھانے کا حق ہے میں نے بھی وہی فائدہ اٹھانا چاہا۔ فرمایا: امیر المومنین کا بیٹا ہونے کی وجہ سے سرکاری ملازموں نے تمہارے اونٹوں کی نگہداشت کی خود تم نے اس پر ملازم نہ رکھا اس لئے انصاف یہ ہے کہ اونٹ بیچ کر اپنا راس المال لے لو اور باقی رقم سرکاری خزانہ میں داخل کرو.... حاکم وقت امیر المومنین اور خلیفہ وقت کے بیٹے کے ساتھ یہ سلوک ؟ اورکہاں پاکستان کے حکمران اور ان کے خاندان؟ پاکستان میں فوجی آمروں کو اعزاز کے ساتھ سر خرو کیا جاتا ہے اور جمہوری آمروں کو ذلت کے ساتھ سر خرو کیاجاتا ہے.... لیکن سیاسی لغت میں کہلاتے سب سر خرو ہیں۔ اللہ کی عدالت میں بیس کروڑ عوام میں ایک بڑھیا بھی شکایت لے کر پہنچ گئی تو لگ پتہ جائے گا ان سب سرخرو حاکموں کو۔ تقاریر میں مثالیں عمر فاروق کی دیتے ہیں اور عمل ان کے جوتے کی نوک کے برابر بھی نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ایک مرتبہ اپنے عوام کے حالات کا مشاہدہ فرمانے کے لئے گشت کر رہے تھے کہ ایک بڑھیا عورت کو اپنے خیمہ میں بیٹھے دیکھا آپ اس کے پاس پہنچے اور اس سے پوچھا اے ضعیفہ! عمر کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟ وہ بولی خدا عمر کا بھلا نہ کرے۔ حضرت عمر بولے یہ تم نے بددعا کیوں کی؟ عمر سے کیا قصور سرزد ہوا ہے؟ وہ بولی، عمر نے آج تک مجھ غریب بڑھیا کی خبر نہیں لی اور مجھے کچھ نہیں دیا۔ حضرت عمر بولے مگر عمر کو کیا خبر کہ اس خیمہ میں امداد کی مستحق ایک ضعیفہ رہتی ہے وہ بولی سبحان اللہ، ایک شخص لوگوں پر امیر مقرر ہو اور پھر وہ اپنی مملکت کے مشرق و مغرب سے ناواقف ہو؟ تعجب کی بات ہے۔ یہ بات سن کر حضرت عمر رو پڑے اور اپنے کو مخاطب فرما کر بولے، اے عمر! تجھ سے تو یہ بڑھیا ہی دانا نکلی۔ پھر آپ نے اس بڑھیا سے فرمایا اے اللہ کی بندی! یہ تکلیف جو تمہیں عمر سے پہنچی ہے تم میرے
ہاتھوں کتنے داموں میں بیچوگی، میں چاہتا ہوں کہ عمر کی یہ لغزش تم سے قیمتاً خرید لوں اور عمر کو بچا لوں۔ بڑھیا بولی بھئی مجھ سے مذاق کیوں کرتے ہو۔ فرمایا، نہیں میں مذاق ہرگز نہیں کرتا ہوں سچ کہہ رہا ہوں کہ تم یہ عمر سے پہنچی ہوئی اپنی تکلیف بیچ دو، میں تم کو جو مانگوگی اس کی قیمت دے دوں گا۔ بڑھیا بولی تو پچیس دینار دے دو، یہ باتیں ہورہی تھیں کہ اتنے میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے اور آکر کہا، السلام علیک یا امیر المومنین! بڑھیا نے جب امیر المومنین کا لفظ سنا تو بڑی پریشان ہوئی اور اپنا ہاتھ پیشانی پر رکھ کر بولی، غضب ہوگیا یہ تو خود ہی امیر المومنین عمر ہے اور میں نے انہیں منہ پر ہی کیا کچھ کہہ دیا۔ حضرت عمر نے بڑھیا کی یہ پریشانی دیکھی تو فرمایا ضعیفہ گھبراو¿ مت، خدا تم پر رحم فرمائے تم بالکل سچی ہو، پھر آپ نے ایک تحریر لکھی جس کی عبارت بسم اللہ کے بعد یہ تھی کہ ”یہ تحریر اس امر کے متعلق ہے کہ عمر بن خطاب نے اس ضعیفہ سے اپنی لغزش اور اس ضعیفہ کی پریشانی جو عمر کے عہد خلافت سے لے کر آج تک واقع ہوئی ہے پچیس دینار پر خرید لی، اب یہ بڑھیا قیامت کے دن اللہ کے سامنے عمر کی کوئی شکایت نہ کرے گی اب عمر اس لغزش سے بری ہے اس بیع پر ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما گواہ ہیں۔“ یہ تحریر لکھ کر بڑھیا کو پچیس دینار دے دئیے اور اس قطع تحریر کو حضرت عمر نے اپنے صاحبزادے کو دے دیا اور فرمایا جب میں مروں تو میرے کفن میں اس تحریر کو رکھ دینا۔“.... عمر جیسی عظیم عالی شان ہستی کو بھی اپنے سر خرو ہونے پر شبہ تھا....؟