اسلامی تاریخ کی چودہ صدیوں میں قانون و انصاف کی باریکیوں کو ابن ثابتؒ سے بہتر شاید ہی کسی نے سمجھاہو اور پھر آگے سمجھایا بھی ہو! الجھی ہوئی گتھیوں کو چٹکی بجاتے میں حل کرنا، پیچیدگیوں کو لمحوں میں سلجھانا، قانونی موشگافیوں میں پھنسے اور پھنسائے بغیر مسائل کو پل بھر میں حل کرنااور انصاف ایسے کرنا کہ انصاف مدعی اور مدعہ الیہ دونوں کو ہوتا ہوا نظر بھی آئے، ابن ثابتؒ پر ختم تھا۔ حد تو یہ ہے کہ جن لوگوں کو عدالت عظمیٰ کے فیصلوں پر اعتراض ہوتا ، وہ بھی ابن ثابتؒ کے کہے کو چوں چراں کیے بغیر تسلیم کرلیتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک عورت ریاستی چیف جسٹس کے فیصلے خلاف شکایت لے کر ابن ثابتؒ کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کیا ”میرا بھائی مرگیا، اس نے چھ سو (600) اشرفیاں ترکہ میں چھوڑیں مگرقاضی کی عدالت سے مجھے صرف ایک اشرفی حصہ میں ملی ہے؟“۔ ابن ثابتؒ چیف جسٹس کواچھی طرح جانتے تھے، فرمایا ”یہی تیرا حق ہے“ ۔ ناصرف عورت جواب سن کر پریشان ہوگئی بلکہ حاضرین محفل نے بھی حیرانی کا اظہار کیا تو ابن ثابتؒ نے سوال کیا ”اچھا بتاو¿ کیا تمہارے بھائی نے دو بیٹیاں سوگوار چھوڑیں؟“ عورت نے عرض کیا ”ہاں دو بیٹیاںچھوڑی ہیں“، آپ نے پوچھا:” ماں چھوڑی؟“ عورت نے کہا ”ہاں“! بیوی چھوڑی؟ عورت نے کہا ”ہاں“۔بارہ بھائی اور ایک بہن چھوڑی؟ عورت نے جواب دیا ”جی ہاں“! تب ابن ثابتؒ نے عورت کو مخاطب کرتے ہوئے وضاحت فرمائی ”تیرے بھائی کی دونوں بیٹیوں کا حصہ دو ثلث (یعنی نصف کے حساب سے) چار سو (400) اشرفی بنتا ہے، ماں کا ایک سدس(یعنی دسویں حصہ کے حساب سے) ایک سو (100)اشرفی ہے اور بیوی کا ثمن(یعنی آٹھویں حصہ کے حساب سے) پچہتر(75) اشرفی ہے، باقی پچیس (25) اشرفیاں جس میں چوبیس (24) بھائیوں کی ہیں، ہر بھائی کو دو اشرفی اور تیری صرف ایک اشرفی بنتی ہے“۔ابن ثابتؒ کا جواب بیان کرنا تھا کہ محفل سبحان اللہ ، سبحان اللہ کی صداو¿ں اور تکبیر کے نعروں سے گونج اُٹھی اور عورت بھی مطمئن ہوکر لوٹ گئی۔
اپنے زمانے کے تمام علماءاور قاضیوں سے زیادہ علم و فضل رکھنے کے باوجود ابن ثابتؒ نے اپنے علم پر کبھی غرور نہ کیا، بلکہ خود کو ساری عمراسلامی قانون اور شریعت کا ایک ادنیٰ طالب علم قرار دیتے رہے۔ حاکم ِوقت ابن ثابتؒ کو اپنے دربار میں دیکھنا چاہتے تھے، لیکن وہ سرکاری اور درباری عہدوں سے ہمیشہ بے نیاز رہے۔ ملکی سیاست میں بالکل بھی دلچسپی نہیں لیتے تھے لیکن ہمیشہ حق اور اہل حق کا ساتھ دیا۔ عراق کے والی یزید بن عمرو نے ان کو اپنا مشیر بنانا چاہا تو آپ نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ ”اگر یزید کہے کہ مسجدوں کے دروازے گن دو تو یہ بھی مجھے گوارا نہیں“۔ مشیر بننے کی پیشکش کے بعد ابن ثابتؒ کو کوفہ کا قاضی بننے کی پیشکش کی گئی لیکن ابن ثابت ؒ نے پھر انکار کردیا جس پر یزید بن عمرو نے طیش میں آکر ابن ثابتؒ کو ایک سو دس کوڑے لگانے کا حکم دے دیا، ننگے جسم پرکوڑے لگے توخون بہہ کر ابن ثابتؒ کی ایڑیوں پر جم گیا، لیکن اُن کے حرفِ انکار میں تبدیلی نہ آئی۔
کچھ عرصہ بعد کوفہ کے قاضی ابن لیلیٰ کا انتقال ہو گیا تو اب کی بار عباسی خلیفہ منصور نے خود ابن ثابتؒ کیلئے قاضی کا عہدہ تجویز کیا ، لیکن ابن ثابتؒ نے پھر صاف انکار کردیا اور جواب دیا کہ ”میں منصب کی قابلیت نہیں رکھتا“۔ انکار سن کرخلیفہ منصور غصہ میںبولا ”تم جھوٹے ہو“، جس پر ابن ثابتؒ نے کہا ”اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ دعویٰ ضرور سچا ہے کہ میں عہدہ قضاءکے قابل نہیں کیونکہ جھوٹا شخص کبھی قاضی مقرر نہیں ہو سکتا“۔خلیفہ نے ابن ثابت کے ہاتھوں لاجواب ہونا اپنی توہین سمجھا اور غصے میں آکر اول ابن ثابتؒ کو بغداد کی تعمیر کے موقع پر اینٹیں شمار کرنے کے کام پر لگایا اور بعد میں قید خانہ میں ڈال دیا۔مورخین لکھتے ہیں کہ قید خانے میں ابن ثابتؒ پر ظلم کے اتنے پہاڑ توڑے گئے کہ اگر وہ ظلم کسی ہاتھی پر ہوتا تو وہ بھی بلبلا اٹھتا، لیکن ابن ثابتؒ نے صبر و شکراور برداشت کا عالیشان مظاہرہ کیااور اپنے موقف سے پیچھے نہ ہٹے۔ جلد ہی ابن ثابتؒ کو قید خانے میں زہر دے کر شہید کردیاگیا۔ ابن ثابتؒ کی شہادت کی خبر سن کر سارا بغداد اُمڈ آیا۔ لوگ بیس دن تک دور دراز سے آتے رہے اور ابن ثابتؒ کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی جاتی رہی۔ یوں کم و بیش بیس لاکھ سے زائد لوگوں نے ابن ثابتؒ کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ چیف جسٹس کا عہدہ قبول کرنے کی بجائے شہادت کو گلے لگانے والے یہ ابن ثابتؒ درصل نعمانؒ بن ثابت تھے، جنہیں تاریخ امام ابوحنیفہؒ کے نام سے جانتی ہے۔امام ابوحنیفہؒ ساری عمر سرکاری اور درباری عہدوں سے دور بھاگتے رہے، بالخصوص انہیں جب بھی قاضی یعنی جج یا قاضی القضاءیعنی چیف جسٹس کا عہدہ پیش کیاگیا تو آپ اس کیلئے بالکل بھی تیار نہ ہوئے! مفسرین کے مطابق امام ابو حنیفہؒ کی جانب سے قضاءکا منصب نہ لینے کی وجہ ایک حدیث مبارکہ تھی۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ”جس نے قاضی کا عہدہ لیا تو وہ چھری کے بغیر ہی ذبح کر دیا گیا۔“امام ابوحنیفہ کے نزدیک قضاءکا منصب مکمل غیر جانبداری اور انصاف کا تقاضا کرتا تھا۔انصاف کے تقاضے مکمل کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ امام ابو حنیفہؒ جانتے تھے کہ عباسی خلیفہ منصور اُنہیں چیف جسٹس مقرر کرکے ناصرف اپنی مرضی کے فیصلے کروانا چاہتا ہے بلکہ اپنے اقتدار کے جائز ہونے کی سند بھی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کی سیرت ہمیں بتاتی ہے کہ جو خود کو ”جج“ نہیں کرسکتا، وہ ایک اچھا جج تو کیا ایک اچھا انسان بھی نہیں بن سکتا۔اسی لیے تو امام ابو حنیفہؒ کی شکل میں دنیا نے خلفاءراشدین کے بعد سب سے بہترین ”عالم، جج اور منصف“ دیکھا۔دنیا میں لوگ اپنے عہدوں کی بحالی کیلئے لانگ مارچ تک کرتے ہیں، لیکن امام ابو حنیفہؒ عہدہ لینے سے ہی کوسوں دور بھاگتے تھے۔دنیا میں لوگ سیاست کا حصہ بن کر نظام تلپٹ کرنے سے باز نہیں آتے لیکن امام ابو حنیفہؒ ایسے معاملات میں پڑنا بھی پسند نہ کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے باون برس اموی خلافت اوراٹھارہ برس عباسی دور دیکھا، آپ کے سامنے دنیا کی سب سے بڑی سیاسی تبدیلی رونماءہوئی لیکن آپ اس تبدیلی کا حصہ بنے نہ ہی کسی صورت اپنا کندھا استعمال ہونے دیا، کیونکہ انہوں نے خود کو ”جج“ کیا ہوا تھا۔ یہ تھا سب سے بڑا جج،جو بلحاظ عہدہ تو جج نہیں تھا لیکن دنیا اُس کے فیصلوں کو مانتی تھی ۔ جو منصف نہیں تھا لیکن دنیا خود اُسے سب سے بڑی عدالت سمجھتی تھی!جومنصف نہیں عدالت تھا، جو فیصلے نہیں انصاف کرتا تھا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024