رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن ‘‘
پاکستان میں بیس ممالک سے قرضوں میں ریلیف کیلئے معاہدوں کی تیار یاں کرلیں ہیں ۔ قرض ریلیف کی ڈیڈ لائن اس سال کا آخری دن تک ہے تاہم پاکستان تیس ستمبر تک ہر ملک سے علیحدہ علیحدہ معاہدہ کرے گا ۔ چین نے پاکستان کو سب سے زیادہ 9ارب ڈالر ، جاپان نے 5ارب ڈالر قرض دیا ، جبکہ قرض دینے والے ممالک میں جنوبی کوریا ، فرانس ، جرمنی ، کینیڈا ، امریکہ اور سعودی عرب بھی شامل ہیں ۔ ان 20 ممالک میں سے 15ممالک سے قرضوں میں نرمی کا اشارہ مل چکا ہے ۔ اب ان ممالک سے علیحدہ علیحدہ 31دسمبر 2020ء سے قبل معاہدے کیے جائیں گے تاکہ 2ارب ڈالرز سے زائد قرض پر ریلیف حاصل کیا جا سکے ۔ بیس بڑی اقتصادی طاقتوں نے غریب ممالک کیلئے سرکاری قرضوں کی ادائیگی موخر کردی ہیں ۔ پاکستان میں بیرونی قرضوں کی روایت اگرچہ پرانی ہے یہ سلسلہ پچاس کی دہائی سے ہی شروع کیا گیا تھا اب تک صرف IMFسے بائیس مرتبہ قرضہ لیا جا چکا ہے لیکن جس حساب سے سابقہ کچھ ادوار اور موجودہ دور میں قرضے لیے گئے اس کی مثال پور ی تاریخ میں نہیں ملتی اہل اقتدار تو اپنا کاروبار حکومت چلانے اور عیاشیوں کیلئے آنکھیں بند کرکے قرضے لیتے ہیں اور یہ ہمارے لیڈر اپنا وقت گزار کر چلے جاتے ہیں پھر حکومت کا یہ سارا قرضہ آخر کار عوام کو اپنا پیٹ کاٹ کر ادا کرنا پڑتا ہے ۔ اس سال بھی وفاقی بجٹ کا سب سے بڑاحصّہ قرضوں کے سود کی ادائیگی کیلئے مختص کیا گیا ۔ اس وقت پاکستان کا کل قرضہ 22ہزار پانچ سو اکیس ارب روپے ہے ۔ آنے والے وقتوں میں بھی اس میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوگا۔ وزارت خزانہ کی رپورٹ کے مطابق 2024ء تک ملک کا مجموعی اندرونی اور بیرونی قرض45ہزار پانچ سو ستر ارب روپے ہو جائے گا ۔ گذشتہ برس اس کی مقدار 31ہزار انیس ارب روپے تھی جو ملک کی کل جی ڈی پی کا 80.4%ہے ۔ اگر کسی ملک کی حکومت پر واجب الادا قرضوں کی کل مقدار کو ملک کی کل آبادی سے تقسیم کردیا جائے تو یہ پتہ چل جاتا ہے کہ اس ملک کے ہر آدمی مردوعورت ، بچے وبوڑھے پر کتنا قرضہ ہے ۔ اس لحاظ سے ہر پاکستانی شہری پر تقریباً ہزار پاکستان روپے کا قرضہ ہے بلکہ ہر پیدا ہونے والا بچہ بھی مقروض ہو کر دنیا میں آنکھیں کھولتا ہے ۔ قرضوں پر انحصار تب نہیں ہوگا جب ملکی معیشت مضبوط ہو ۔ بدقسمتی سے ہماری معاشی ترقی کا نقشہ کبھی حوصلہ افزا نہیں رہا ۔ چند اچھے سال آتے ہیں تو پھر اگلے برسوں آنے والا کوئی نہ کوئی بحران پھر پانی پھیر دیتا ہے ۔ گذشتہ دس برسوں کے دوران خراب حکمرانی اور اس سے بھی خراب امن وامان کی صورتحال کے باوجود معیشت نہایت آہستہ آہستہ بڑھتی رہی ۔ سخت اقدامات نے امن وامان کی صورتحال کو نمایاں طور پر بہتر بنایا ۔ ان حالات میں امید کی جارہی تھی کہ معیشت میں گروتھ رفتار پکڑے گی ۔ 2018ء میں گروتھ ریٹ ساڑھے پانچ کے قریب آگئی تھی اور بین الاقوامی ماہرین توقع کررہے تھے کہ آئندہ دو تین برسوں میں یہ ساڑھے چھ سے اوپر جائے گی لیکن وحسرتاً!قحط سالی پھر سے لوٹ آئی ۔ گروتھ ریٹ اوپر کیا جاتی ، اگلے سال گر کر تین تک آگئی اور اب نااہل حکومت نے اسے مزید گرا کر منفی تک پہنچا دیا جو ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوا ۔ 2010ء میں ہماری پوری اندرونی ملکی پیداوار 41.177بلین ڈالر تھی جو 2018ء تک 57.314بلین تک پہنچ چکی تھی لیکن 2019ء میں یہ گر کر 22.278بلین اور اس سال 277بلین تک آگئی اگر ہم بین الاقوامی اداروں کی پیش گوئیوں کو مبالغہ قرار دیں اور سابقہ سست رفتاری کو فرض کرلیں ، نیز کرونا کی وجہ سے اس سال گروتھ ریٹ میں آنے والی کمی کو حساب میں لائیں پھر بھی اس سال ہم ساڑھے تین سو بلین ڈالر کے ارد گرد ہوتے ۔ دوسرے لفظوں میں ہم بطور قوم 2018ء کے مقابلے میں 37بلین ڈالر 8.11فیصد غریب ہوچکے ہیں اور اگر 2020ء کی متوقع معاشی حالت سے مقابلہ کریں تو ہم اس وقت 72بلین ڈالر یا 20فیصد غریب ترہیں ۔ گذشتہ 2برسوں کے دوران معیشت کے بارے میں اگر کوئی مثبت خبر ہے تو وہ تجارتی خسار ے میں کمی کی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہمیشہ سے باہر سے زیادہ اشیاء منگواتے ہیں اور باہر کم بھیجتے ہیں ۔ اس کمی کو ہم بیرون ملک کا م کرنے والوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم اور قرضوں وغیرہ سے پور ا کرتے رہے ہیں ۔ سال 2018-19ء کے دوران اس خسارے میں خاطر خواہ (تقریباً 6بلین ڈالر )کی کمی ہوئی لیکن اگر وہ اندرونی پیداوار میں اضافے کی وجہ سے ہو یعنی جو چیزیں ہم باہر سے منگوا تے ہیں ان کا متبادل خود پیدا رکریں ۔