جنوبی ایشیا سے نئی سرد جنگ کا آغاز
بیجنگ میں قائم چین اور گلوبلائزیشن پر تحقیق کے مرکز(Center for China and Globalization, Beijing, China) کے نائب صدر وکٹر ڑہیکائی گاآونے چشم کشا حقائق بیان کئے اور چین کی دانائی اور دوراندیشی پر مبنی حکمت عملی کی پرتیں کھولیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چین امریکہ کے ساتھ کسی ممکنہ جنگ کیلئے پہلے سے ہی تیاری کرچکا ہے۔ سوبرس دور دیکھنے والے چینی ایسے کسی امکان سے کبھی غافل نہیں رہے، وہ کسی بھی ایسے مرحلے کا سامنا کرنے کیلئے پہلے سے ہی ہمہ وقت تیاری میں ہیں۔ وکٹر ذکائی گاآو کا کہنا ہے کہ اگر بھارت نے پہلی گولی چلائی تو ہم اسے دوسری گولی چلانے کا موقع نہیں دینگے۔ بھارت کو اب چین کی خودمختاری اور چینی فوجیوں کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دینگے۔ یہ کہنا ممکن نہیں کہ ’ایل۔اے۔سی‘ کا معاملہ ختم ہوگیا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان اور چین شانہ بہ شانہ ہیں۔ ہمیں اکھٹے ہی رہنا چاہئے۔ انہوں نے واضح کیا کہ بھارت مزید اسلحہ خریدے گا تو اسکی معیشت کو نقصان ہوگا۔ بہتر ہوگا کہ مودی چین کے ساتھ امن پسندی اپنائے اور اپنے فوجیوں کو نہ مروائے۔
امریکہ ہمیشہ سے دنیا کی واحد عالمی طاقت رہنا چاہتا ہے، اس سوچ کو ابھرتے چین نے خطرے میں ڈال دیا ہے جس کے تدارک کیلئے امریکہ نے نئے اتحاد بنائے ہیں۔ ایک نئی سرد جنگ پہلے ہی شروع ہوچکی ہے جنوبی ایشیاسمیت مختلف خطے اس کا مرکز ہیں بھارت اس سرد جنگ میں امریکی اتحادی بن چکا ہے۔ بھارت مغرب سے بہت ہتھیار لے چکا ہے، انہوں نے جوہری حملے میں پہل کی پالیسی تبدیل کردی ہے۔
مودی نے بھارتیوں کے ساتھ ساتھ مغرب کی امیدیں بھی بڑھا دی ہیں کہ وہ بیک وقت چین اور پاکستان سے نمٹ سکتا ہے۔ وادی گلوان میں بے عزتی کی بحالی کیلئے موذی کی کسی مہم جوئی کا خطرہ موجود ہے۔ چین اور پاکستان کو خاص طورپر موسم سرما میں تیار رہنا ہوگا۔ امریکہ اور بھارت سی پیک کا راستہ روکنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ صدر شی جن پنگ کے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ شاہ کلید حصہ ہے۔ امریکہ اور بھارت، چین پاکستان تعاون کو نقصان پہنچانے کیلئے دہشت گردی سمیت کوئی بھی ہتھکنڈا اختیار کرسکتے ہیں۔ گوادر ہوٹل، چینی قونصلیٹ اور پاکستان سٹاک ایکسچینج، کراچی میں واردات ہم دیکھ چکے ہیں۔ اس علاقے پر چین کا دعوی قدیم ہے اور اس کی وجوہات بھی واضح ہیں۔ چین توسیع پسندی پر کاربند نہیں جبکہ بھارت دیگر علاقوں کو ضم اور ان پر قبضے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ کئی مواقع پر یہ پاکستان کے ساتھ وہ کرچکا ہے۔ 1984 میں سیاچین کا واقعہ ہمارے سامنے ہے۔
دفاعی تجزیہ کار چین کے ردعمل کو پاکستان اور دنیا کیلئے حیران کن قرار دیتے ہوئے اسے واضح پیغام بیان کرتے ہیں کہ ’قراقرم ہائی وے‘ (کے۔ کے۔ ایچ) یعنی شاہراہ ریشم اور سی پیک کیلئے خطرہ برداشت نہیں کیاجائیگا۔ چین نے امریکہ سمیت سب کو کھل کر بتادیا کہ اس مقصد کیلئے وہ فوجی طاقت استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کریگا۔ بھارت اپنی فوجی قوت میں مسلسل اضافہ کررہا ہے، نئے ہتھیار خرید رہا ہے، دہشتگردی کی کارروائیوں میں مدد کررہا ہے۔ بھارت نے اپنے آئین کی شق 370 میں تبدیلی چین کو روکنے کی حکمت عملی کے تحت کی ہے۔ جس کا جواب چین نے دفاعی انداز میں ایک قدم آگے بڑھ کر اقدام سے دیا ہے۔ اب خطے میں ’امریکہ بھارت‘ اور ’بھارت اسرائیل‘ فوجی اڈے قائم ہوتے نظرآتے ہیں۔ ان خطرات کو دیکھتے ہوئے چین اور پاکستان کو مل کر مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہوگی تاکہ مل کر خطے میں ابھرتے خطرات کا مقابلہ کیاجائے۔
بھارت کے زیرقبضہ جموں وکشمیر کے مسئلے کا حل نکلتا ہے تو چین اور پاکستان کو مل بیٹھ کر لداخ کے مستقبل کو طے کرنا چاہئے۔ اس ضمن میں ایک متفقہ نقشہ بھی تیار کیاجاسکتا ہے تاکہ یہ ابہام نہ رہے کہ لداخ کا کون سا حصہ چین کے ساتھ جائے گا۔ بھارت میں چین کے سفیر سن وی ڈونگ نے نئی دہلی میں بیٹھ کر پیغام دیا کہ امن کیلئے پارٹنرشپ کی ضرورت ہے، حریف نہ بنیں۔ دونوں ممالک کے درمیان جب تک پیچیدہ مسئلے کا مناسب حل نہیں نکلتا تک تک امن وآشتی برقرار رکھی جائے۔ چینی اشیاء کے بائیکاٹ اور دیگر تجارتی پابندیوں کی بات کو سن وی ڈونگ نے چینی کمپنیوں اور بھارتی صارفین کے ساتھ زیادتی قرار دیا ہے۔
چینی سفیر نے بھارت کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ برابری، ایک دوسرے کے بنیادی مفادات اور تحفظات کا احترام ہونا چاہئے۔ 18 منٹ کی وڈیو کے ذریعے بھارت میں چینی سفیر نے یہ پیغام سفارت خانے کی یوٹیوب چینل پر جاری کیا جس کا عنوان تھا کہ ’’اتفاق رائے پر کاربند ہوں اور اختلافات کو مناسب طورپر حل کریں تاکہ چین بھارت تعلقات واپس درست راہ پر آسکیں۔‘‘ انہوں نے صدر شی جن پنگ سے بھارتی وزیراعظم کی 2018 میں سربراہان مملکت کی سطح پر غیررسمی ملاقات میں اتفاق رائے اور پرانے تعلقات کا بھی حوالہ دیا۔
اس وڈیو پیغام میں بھارت کو بنیادی طورپر پانچ پیغام دئیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ بھارت اور چین کو شراکت دار ہونا چاہئے ناکہ حریف۔ دوسرا نکتہ کشیدگی کے بجائے امن ہے۔ ایسا طرز عمل اپنائیں کہ دونوں کا فائدہ ہو۔ شک کے بجائے اعتماد کے فروغ کی ضرورت ہے۔ آخری بات یہ کہ دوطرفہ تعلقات کو پیچھے کے بجائے آگے کی طرف جانا چاہئے۔ سَن وی ڈونگ نے واضح کہا کہ ایک دوسرے پر رائے ٹھونسنے کے بجائے ایک دوسرے سے کیا عہد پورا کرنا چاہئے، بات چلنے دیں اور رہنمائوں میں طے پانے والے اتفاق پر اسکی روح کیمطابق عمل کریں۔ بروقت سٹرٹیجک کمیونیکیشن، باہمی اعتماد اور تعاون میں اضافہ کرنا چاہئے، مذاکرات سے اختلافات طے کئے جائیں اور دوطرفہ تعلقات کی سمت مضبوطی سے سنبھالی جائے۔ 15 جون کے تصادم کا حوالہ دیتے ہوئے چینی سفیر نے ’’وادی گلوان میں اموات کا باعث واقعہ‘‘ کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ ’’ایسی صورتحال چین اور نہ ہی بھارت دیکھنا چاہے گا۔‘‘
امن پسندی کے پیغام کے ساتھ چینی سفیر نے یہ بھی واضح کیا کہ ’’ہم جنگی یا دوسروں پر چڑھائی کرنے والے ملک نہیں۔ وادی گلوان میں صحیح اور غلط بالکل واضح ہے۔ چین اپنی خودمختاری اور جغرافیائی سالمیت کا بھرپور دفاع کریگا اور سرحدات پر امن وآشتی یقینی بنائے گا۔دونوں ممالک کو کسی بھی ’مس کیلکولیشن‘ سے بچنا چاہئے۔‘‘ ’مس کیلکولیشن‘ کا مطلب یہ ہے کہ ’حملے کی حماقت نہ کرنا۔ (ختم شد)