عمران خان کے دورہ امریکہ پر طالبان مذاکرات میں پاکستان کی مدد کیلئے ڈو مور کا مطالبہ متوقع
اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) رواں ماہ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کے مذاکراتی ایجنڈہ ، ملاقاتوں اور دورہ سے جڑی دیگر مصروفیات اور انتظامات کی تیاری شروع ہو گئی ہے۔ ذمہ دار ذرائع کے مطابق پاک امریکہ دوطرفہ تعلقات میں گرمجوشی کی بحالی، باہمی اعتماد سازی اور افغانستان میں امن جیسے موضوعات کو بات چیت میں کلیدی حیثیت حاصل ہو گی۔ ان ذرائع کے مطابق یہ دورہ وزیر اعظم عمران خان کیلئے ایک چیلنج کی حثییت رکھتا ہے۔ ایک طرف تو انہیں ون آن ون اور وفود کی سطح پر مذاکرات کے دوران متلون مزاج ڈونلد ٹرمپ سے نمٹنا ہو گا جو ایک طرف تو افغانستان کے کمبل سے جان چھڑانے کیلئے پاکستان سے غیر معمولی توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں تو دوسری جانب انہیں ایران کے خلاف کسی بھی کارروائی کے دوران پاکستان سے تعاون کی توقع ہے لیکن امریکہ کی طرف سے ایران کے خلاف طاقت کے استعمال کی تمام خواہشوں کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان نے ہمیشہ ایٹمی معاہدہ پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی نماندے ذلمے خلیل زاد بھی مذاکرات کے دور میں شامل ہوں گے ۔ اس صورت میں مذاکراتی ایجنڈے میں افغان مسئلہ کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی کمزور معاشی صورتحال کے پیش نظر وزیر اعظم عمران خان کو مذاکرات کے دوران لازماً وزیر اعظم عمران خان کو امریکی دبائو کا سامنا کرنے پڑے گا کیونکہ امریکیوں کو بخوبی علم ہے کہ پاکستان کو اس وقت نقد رقوم کی اشد ضرورت ہے۔ ون آن ملاقات کے دوران دونوں قائدین غیر رسمی گفتگو کریں گے جب کہ وفود کی سطح پر مذاکرات کے دوران باہمی اعتماد کی سطح بڑھانا۔ سٹریٹجک ڈائیلاگ ، پاک امریکہ سیکورٹی تعاون اور کولیشن سپورٹ فنڈ کی بحالی سمیت دو طرفہ تعلقات کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کیا جائے گا۔ چین اور بھارت کے ساتھ امریکہ کی تجارتی چشمک کے برعکس، پاکستان اور امریکہ کے درمیان ایسی کوئی محاذ آرائی نہیں کیونکہ توازن تجارت محدود اور امریکہ کے حق میں ہے چنانچہ ، پاکستانی وفد کے پاس کھلا موقع ہو گا کہ وہ امریکہ سے تجارت کے حجم میں اضافے اور تجارتی رعائتوں کے موضوع پر بات کر سکے۔ امریکہ میں تسلیم کیا جا رہا ہے کہ دوحہ قطر امیں امریکہ، طالبان مذاکرات میں پیشرفت، پاکستان کی مرہون منت ہے۔ مذاکرات کے دوران ، پاکستان کو اس تاثر سے بھرپور استفادہ کرنے کی کوشش کرنی ہو گی۔ اس پر مستزاد، امریکہ کے نامزد فوجی سربراہ کا حالیہ بیان ہے جس میں انہوں نے پاکستان کے ساتھ سلامتی کے شعبے میں تعاون کی اہمیت اجاگر کی ہے۔ طالبان ، امریکہ بات چیت میں پاکستان کی مدد کیلئے ڈو مور کا مطالبہ متوقع ہے۔ ان ذرائع کے مطابق امریکہ چاہتا ہے کہ امن معاہدہ میں ، اس کے موجودہ افغان اتحادیوں کو زیادہ سے زیادہ شریک اقتدار رکھا جائے جن کے ذریعہ افغانستان میں امریکی مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔خطہ کے استحکام کے ضمن میں ، پاکستان کی طرف سے افگانستان میں قیام امن اور بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کیلئے کوششوں پر روشنی دالی جائے گی۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اجاگر کئے جائیں گے اور مسلہ کشمیر کے حل کیلئے امریکہ کو کردار ادا کرنے کا کہا جائے گا۔افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا معاملہ اٹھایا جائے گا۔اس زریعہ کے مطابق طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کی صورت میں ، افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کیلئے تعاون ، ایجنڈے کا اہم موضوع ہو گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو دورہ پاکستان کی دعوت دیں گے۔