پیر ‘ 11؍ ذیقعد 1440ھ‘ 15؍جولائی 2019ء
سندھ بنک میں 60 ارب روپے کا سکینڈل
کرپشن کا ناسور ہمارے ہر محکمہ میں کچھ اس طرح جڑیں جما چکا ہے کہ جس طرف ہاتھ بڑھائو معاملہ گڑ بڑ لگتا ہے۔ اب سندھ بنک میں 60 ارب روپے کے اس سکینڈل کی زد میں تو 50 صوبائی محکمے بھی آ رہے ہیں جن کا لہو بھی حساب دوستاں میں چکتا ہو چکا۔ خطرہ ہے اس 60 میں سے 40 ارب تو مکمل ڈوب چکے ہیں ان کی واپسی کی امید نہیں ۔ شاید سزائے موت اور اثاثوں کی ضبطی سے کچھ مال نکل سکے۔ اب روئیے کس کس کو اور کس کا ماتم کیجئے۔ جب باڑ ہی کھیت کو کھانے لگے تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔ حکومت سندھ نے خود ان محکموں کو سندھ بنک کے دلدل میں اُترنے کا حکم دیا تھا۔ جو
کھڑے بھی ہونا تو دلدلوں میں
پھر اپنے پائوں تلاش کرنا
والی بات ہے۔ پھر اسی بنک نے اربوں روپے مرد ہ اور بیمار قرار دی گئی صنعتوں کی بحالی کے لیے قرضوں کی شکل میں دئیے گئے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہمارے ہاں قرضے واپس ادا کرنے کے لیے نہیں لیے جاتے بلکہ منصوبہ بندی کے تحت ہڑپ کرنے کے لیے لیے جاتے ہیں۔ سو یہی ہوا ایک ہی صنعتی یونٹ یا فیکٹری دوبارہ بحال نہ ہو سکی۔ اپنے پیروں پر کھڑی نظر نہیں آئی ۔ اب کیا ہوتا ہے کیا ہو گا۔ یہ تو تحقیقات سے پتہ چلے گا مگر سیاسی میدان میں شور مچ جائے گا کہ ہمیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ کوئی معمولی سکینڈل نہیں ہے۔ 50 محکموں کی زندگی اور موت کا سوال ہے۔ ان کی رقوم کی واپسی ازحد ضروری ہے ورنہ وہ بھی سندھ بنک کے ساتھ ایڑیاں رگڑتے نظر آئیں گے۔ اس لیے بہرصورت ڈوبی ہوئی رقم نکلوانا ہو گی۔
٭٭٭٭٭٭
گھر سے کھانے لانے کیلئے
رانا ثنا کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
ہمارے گرفتار سیاستدان بھی ناشکرے ہیں۔ گھر کا کھانا تو سب کو ملتا ہی رہتا ہے جو ظاہر ہے خاصہ مرغن صحت بخش اور لذت والا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے خوب جی بھر کے کھایا جاتا ہے جو طرح طرح کے امراض کا موجب بھی بنتا ہے۔ اب اگر ان سیاستدانوں کو جیل میں سرکاری طور پر جیل کا بے لذت روکھا پھیکا اوربے ذائقہ کھانا مل رہا ہے تو یہ اسے ہی نعمت سمجھ کر قبول کرتے۔ اس طرح دوران قید ہی ان کا وزن کم ہو سکتا ہے۔ صحت بہتر ہو سکتی ہے۔ مگر لگتا ہے یہ لوگ ایسی کسی مفت سہولت سے فائدہ اٹھانے کے حق میں نہیں ہیں اور کفران نعمت کر رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کو تو اب گھر سے آنا بند ہو چکا ہے۔ انہیں جیل میں ہی بننے والی خوراک استعمال کرنا ہو گی جو انگریزی دور سے اب تک موردالزام ٹھہرائی جاتی ہے۔ سامراج کا دور تو گزر گیا اب آزادی کا دور دورہ ہے جس میں بھی ابھی تک بے مزہ پتلی دالی، سوکھی کاغذی روٹیاں، بنا تڑکے کے سبزیاں اور کبھی کبھار کسی گوشت کا شوربہ بھی قیدیوں کو ملتا ہے۔ سرکاری راشن کا اصل حصہ جیل کے عملے کے گھر میں پکتا ہے۔ اکثر قیدیوں کو خام راشن ان کے گھر والے اِدھر اُدھر سے ادھار پکڑ کر پہنچا دیتے ہیں جس میں سے آدھا جیل کے ملازمین ہڑپ کر لیتے ہیں۔ قیدی بے چارے تو صبر شکر کر لیتے ہیں۔ سیاستدان البتہ عدالتوںمیں گھر سے کھانا منگوانے کے لیے درخواستیں دیتے پھرتے ہیں…
٭٭٭٭٭٭
ٹرمپ اور عمران کا مزاج ا یک ہے: شیخ رشید
یہی وجہ ہے کہ شیخ جی دعا مانگ رہے ہیں کہ خدا خیر کرے۔ دونوں میں ملاقات ہو رہی ہے۔ اب کہیں کچھ ایسا ویسا نہ ہو جائے۔ حالانکہ شیخ جی اس ملاقات کو مثبت لیتے ہوئے کہہ سکتے تھے کہ
یہ ملاقات اک بہانہ ہے
پیار کا سلسلہ پرانا ہے
مگر انہوں نے حفظ ماتقدم پہلے ہی دونوں کی گرم مزاجی اور تیز طبیعت کے خوف سے خیر کی دعا مانگی ہے۔ اس پر پی ٹی آئی کے باقی ممبران نے دل ہی دل میں زور دار آمین بھی کہی ہو گی۔ قصہ مختصر گزشتہ روز وفاقی وزیر ریلوے نے حالیہ ٹرین حاد ثے کے حوالے سے اہم پریس کانفرنس کا اعلان کیا تھا مگر لگتا ہے صحافیوں کو سامنے دیکھ کر ان میں موجود وزیر سو جاتا ہے اور اندر کا سیاستدان جاگ اُٹھتا ہے۔ اس لیے ان کی ساری پریس کانفرنس سیاست اور مخالفین کے خلاف ہی گھومتی رہی۔ ریلوے حادثہ گیا بھاڑ میں۔ پے درپے حادثات بھی انہیں مکمل وزیر ریلوے نہ بنا سکے۔ ان کی پریس کانفرنس والے دن بھی ریلوے والے حادثات سے باز نہیں آئے اور کراچی سے لاہور آنے والی جناح ایکسپریس کا راڈ باکس ٹوٹ گیا جس سے ٹرین ہچکولے کھانے لگی اور مسافر سلامتی کی دعائیں مانگنے لگے۔
شکر ہے بروقت روک کر مرمت ہو گئی ورنہ پریس کانفرنس کے دوران ہی صحافی شیخ کو سرمنڈواتے ہی اولے پڑنے والا محاورہ یاد کرا دیتے۔
٭٭٭٭٭٭
سابق بھارتی اداکارہ و ممبر پارلیمنٹ ہیما مالنی
نے اسمبلی کے باہر جھاڑو پھیرا
اب ذرا ویڈیوز میں اور تصویروں میں ہیما جی کی ادائیں تو دیکھیں جھاڑو بھی یوں پکڑ رکھا ہے جیسے کسی فلم کی شوٹنگ میں آئی ہیں اور کیمرے آن ہونے پر ہی نہایت ادائوں کے ساتھ ڈانس کرنے کے انداز میں وہ کھجور والی جھاڑن زمین پر پھیر رہی ہیں۔ قدم ناز و انداز سے اٹھا ری ہیں۔ قیمتی لباس پہنا ہوا ہے۔ قیمتی چشمہ لگایا ہوا ہے۔ سڑک بھی ایسی صاف کہ کوئی تنکا گرا ہوا نہیں ہے۔ صاف لگتا ہے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا رہی ہے۔ جھاڑو ہی پھیرنا تھا صفائی ہی کرنی تھی تو ذرا پارلیمنٹ کے سامنے سے ہٹ کر دہلی کے ان کوچوں کا رخ کرتیں جنہیںکبھی شاعر اوراق گل قرار دیتے تھے۔ تب انہیں پتہ چلتا کہ کچرہ کیا ہوتا ہے گندگی کسے کہتے ہیں۔ صفائی کس چڑیا کا نام ہے اور نہیں تو چاندنی چوک ہی چلی جاتیںاور جھاڑ لگاتی تو یقین کریں ہزاروں تماشبینوں کی بھیڑ لگ جاتی اور کئی تو باآواز بلند
کس شان سے نکلا ہے محبوب ہمارا
ہے سر پہ چاند ہاتھ میں دمدار ستارہ
کا شعر سناتے۔ ہمارے ہاں بھی کبھی ایم کیو ایم والے ایسا ہی تماشہ کراچی کی سڑکوں پر لگاتے تھے۔ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات نکلتا۔ آج بھی بلدیاتی ادارہ ایم کیو ایم والوں کے پاس ہے۔ کراچی کی حالت دیکھ لیں پاکستان کا گندا ترین نہ سہی گندا شہر البتہ ضرور کہلاتا ہے۔ خود کراچی والے صفائی کی اپیلیں کرتے کرتے تھک گئے ہیں…
٭٭٭٭٭٭