عمران خان نیب کو خاص طور پر ان کیخلاف کارروائی کا حکم دیں، یہ حکم دیتے وقت عمران خان یہ فکر دامن گیر نہ رکھیں کہ انکے ساتھی کم ہوگئے تو اقتدار ہاتھ سے نکل جائے گا، عمران خان یقین رکھیں ایسا کچھ نہیں ہوگا کیونکہ جو لوگ خوشنودیٔ الہٰی کیلئے دیانت داری سے کام کرتے ہیں، ان کی راہ میں حائل ہونیوالے کانٹے اللہ کے حکم سے گلزار بن جاتے ہیں، لیکن اس سے یہ ہوگا کہ پھر اپوزیشن کا کوئی بھی فرد حکومت کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔
نیز اسکے ساتھ ہی ایک کام اور بہت ضروری ہے وہ یہ کہ حکومتی وزراء کو سختی کے ساتھ ہدایت کردی جائے کہ وہ اپوزیشن کے کسی عہدیدار یا کارکن کی گرفتاری کے حوالے سے کوئی بات نہ کریں۔ حالانکہ حالات سے یہ اندازہ قائم کرنا مشکل نہیں ہوتا کہ حالات کے مطابق اب قانون کی گرفت کس کی جانب بڑھنے والی ہے لیکن اپوزیشن کو اس پر اعتراض ہے کہ مقتدر افراد کو کیسے معلوم ہوجاتا ہے کہ اب کون گرفتار ہونے والاہے، گو یہ اعتراض برائے اعتراض ہے کیونکہ اب کس کی باری آنیوالی ہے اس بارے میں خو اپوزیشن کے عہدیدار بھی پیش بندی کر سکتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ اپوزیشن کو کچھ تو بات کرنے کیلئے چاہئے، اس لئے حکومت کا فرض ہے کہ تمام حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے ایسا ماحول رکھے کہ اپوزیشن کو اعتراض کا کوئی موقع نہ مل سکے، جب تمام ادارے قانون کے مطابق عمل کرینگے اور قانون مقتدر و اپوزیشن تمام کیلئے یکساں ہوگا تو پھر اپوزیشن کو بھی اپنے لبوں پر تالے لگانا ہوںگے پھر وہ حکومت کیخلاف کوئی بات کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔
جہاں تک رانا ثناء اللہ کی گرفتاری کا تعلق ہے تو اس ضمن میں کون نہیں جانتا کہ انکے کالعدم تنظیموں کے ساتھ تعلقات تھے اور وہ ان دہشت گرد کالعدم تنظیموں سے حکومت کو ووٹ لے کر دیتے تھے، اسی لئے جب رینجرز نے آپریشن کیلئے اجازت طلب کی تو اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے یہ کہتے ہوئے آپریشن کی اجازت نہیں دی تھی کہ یہ کام پنجاب پولیس کررہی ہے حالانکہ پنجاب پولیس کچے میں چند ڈاکوئوں سے نمٹنے کے قابل نہیں ہے یہ شائد تین سال پہلے کی بات ہے جب پولیس کچے میں ڈاکوئوں کیخلاف آپریشن کرنے گئی اور اپنے کئی ساتھی یرغمال بنواکر لوٹ آئی آخر کاوہاں فوج کی ہی مدد لی گئی اور ان ڈاکوئوں کو قانون کے شکنجے میں لیا گیا، بہرحال اس ضمن میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ حکومت کا اس گرفتاری سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، تو پھر وہ اپنے وزراء کو بھی اس ضمن میں بیانات دینے سے روک دیں۔ حالانکہ راناثناء اللہ کے حوالے سے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی بیٹی کا بیان واضح ہے لیکن اس کے باوجود اگر حکومتی وزراء اس ضمن میں اپنی زبان بند رکھیں اور قانون کو اپنی کارروائی کرنے دیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔
جہاںتک جیلوں میں کلاس کا ختم کرنے کا سوال ہے تو یہ بہت ضروری ہے کیونکہ اس قسم کا نظام جس میں امیر و غریب کے مابین انصاف اور جزا و سزا میں بھی فرق رکھا جائے گا تو پھر انسانیت کہیں نظر نہیں آئے گی نیز اسلام میں سزا و جزا کا تصور اس لئے ہے کہ سزا کے خوف سے مسلمان گناہ سے بچیں اور جزا کی خاطر نیک کام انجام دیں، وہ ایمان کا بہت بلند مقام ہے جہاں انسان عبادت سزا کے خوف یا جزا کی لالچ میں نہیں بلکہ اس لئے کرتا ہے کہ اللہ لائق عبادت ہے۔ قید میں کسی قسم کی کلاس جرائم کو فروغ دینے کا باعث بنتی ہے جب لوگ دیکھتے ہیں کہ ایک سیاست دان پہلے ملک کی دولت لوٹتا ہے پھر عمر کے آخری حصے میں قانون کے شکنجے میں جاکر عیش کے ساتھ اتنی آرام دہ جیل میں وقت گزارتا ہے جس حال میں ملک کے متوسط طبقے کے افراد بھی نہیں گزار سکتے تو پھر جرائم پیشہ افراد بھی سیاست میں آنا شروع کردیتے ہیں جن کامقصد عوام کی خدمت نہیں بلکہ اپنے جرائم کی پردہ پوشی اور لوٹی گئی رقم کو تحفظ دینا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج سیاست میں عوام دوست افراد کی قلت جبکہ ابن الوقت افراد کیاکثریت ہے جس کا ثبوت ہارس ٹریڈنگ ہے جو ہمارے ہاں کئی سال سے مروج ہے، اس لئے جیلوں میں کلاس کا ختم کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ سزا و جزاء کا ایسا نظام متعارف کرایا جائے جس پر کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے۔
اصل چیز سیاست میں دوغلاپن ہے کہ ہم اپنے دوراقتدار میں جو چیز اپنے لئے جائز سمجھتے ہیں وہی چیز مخالفین کیلئے ناجائز سمجھنے لگتے ہیں، اسکی ایک مثال بلاول بھٹوزرداری کا یہ بیان ہے جو انہوں نے مہمند میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے دیا ہے کہ موجودہ حکومت کا دہرا معیار ہے، حکومت کا ایک نہیں دو پاکستان دیکھو جس میں جھونپڑی حرام اور بنی گالا حلال ہے، ایم کیو ایم کی فارن فنڈنگ حرام اور پی ٹی آئی کی فارن فنڈنگ حلال ہے، رانا ثناء اللہ کی منشیات حرام ہے مگر وزیراعظم کی منشیات حلال ہے، نوازشریف کی آف شور حرام اور لاڈلے کی آف شورحلال ہے، یہ جھوٹے لوگ ہیں جو جھوٹ پر جھوٹ بول رہے ہیں۔ بلاول کو زبان کھولنے سے پہلے وقت حقائق کو پیش نظر رکھنا چاہئے تھا جہاں تک آف شور کمپنی کاتعلق ہے تو عمران خان نے وہ اس لئے بنائی تھی کہ لندن میں مکان خرید سکیں اور اس کو فروخت کرتے وقت اضافی ٹیکس نہ دیناپڑے۔ مکان اس آف شور کمپنی کے نام لیا تھا جبکہ دیگر کی آف شور کمپنیاں چوری کی رقم چھپانے کے لئے ہیں ان میں ظاہرہے کہ فرق تو ہے، ایسے ہی بنی گالا میں جب عمران خان نے رہائش گاہ تعمیر کی تھی اس وقت وہ جنگل تھا اور آبادی میں نہ ہونے کی بنا پر وہاں کسی قسم کے کوئی تعمیری قوانین نہیں تھے، اور جب قانون لاگو کئے گئے تو پہلے سے تعمیر شدہ مکانوں کو ظاہر ہے کہ کچھ رقم دے کر قانونی شکل دینا پڑی، یہ بھی قابل اعتراض نہیںہے،بلال زرداری کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اپوزیشن کا کام ہر بات پر مخالفت نہیں ہوتا یہی ہماری جمہوریت سے ناآشنائی ہے اور ایسے افراد جمہوریت کے اہل نہیں ہوا کرتے، ہمارے ہاںاہل سیاست میں جوتم پیزار ہوتی رہتی ہے، سیاست دانوں کو اس پر بھی توجہ دینا چاہئے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024