امریکہ نے ایران سے اپنی سرزمین کے کسی اجاڑ اور ویران علاقے پر محدود فضائی حملہ کرنے کی اجازت مانگی ہے یہ درخواست باضابطہ طور پر مشترکہ دوست ممالک قطر اور عمان کے سفارتی ذرائع کے ذریعے ہی کی جاسکتی تھی۔ پاکستانی دفتر خارجہ اس طرح کی حساس سفارتی ذمہ داریاں ادا کرنے کی صلاحیت سے بالکل عاری ہے کہ سنئیر افسروں کے بچوں اور سسرالی عزیزوں کی ویزا درخواستیں ہمہ وقت امریکی سفارت خانے کی مختلف درازوں میں درجہ بدرجہ پڑی ہوتی ہیں اور بھکاری سب کچھ ہوسکتے ہیں، سفارت کار نہیں ہوسکتے میر تقی میر نے تو عشق و عاشقی کے بارے کہا تھا یہ آفاقی شعر سفارتی کاری کی بھی پوری طرح منظر گری کرتا ہے
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
امریکہ کے پیغام سے پنجاب کے ‘‘رسوائے زمانہ‘‘ جعلی پْلس مقابلے یاد آگئے ہیں۔ امریکہ نے ایران کو پیغام بھجوایا ہے کہ وہ اسے اپنی سرزمین کے کسی اجاڑ اور ویران علاقے پر محدود فضائی حملہ کرنے کی اجازت دے دے۔ تاکہ خلیج فارس میں ایران نے اس کا مہنگا اور جدید ترین ڈرون گرا کر امریکی ٹیکنالوجی کا مذاق اڑایا ہے ، ایران کے تھپڑ سے واحد عالمی طاقت امریکہ کی مونچھ نیچے ہوگئی ہے، اسے پھر سے اونچا کرنے کا صدری نسخہ اپنایا جائے۔ عالمی ’درشن ورشن‘ کیلئے جنگ کا سوانگ رچایا جائے۔ یہ انکشاف سینئر ایرانی کمانڈر بریگیڈئیر جنرل غلام رضا جلالی نے کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی ڈرون کے مارگرائے جانے کے بعد امریکیوں نے سفارتی ’وچولوں‘ کے ذریعے سے ہمیں کہا ہے کہ وہ غیراہم اور کسی خالی خطے میں محدود کاروائی کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ دنیا میں اور اپنی عوام میں منہ دکھانے کے قابل ہوجائے۔ امریکہ کا یہ بھی منت ترلا تھا کہ اس محدود کاروائی ڈرامے کے دوران ایران ہمیں جواب نہ دے۔
ایرانی جرنیل نے ‘سفارتی وچولوں‘ کی مزید وضاحت نہیں کی کہ شاید اس کی ضرورت بھی نہیں ہے کہ اس کھیل کے سارے کردار جانے پہنچانے ہیں جنرل جلالی خطے میں امریکی معاندانہ اور احمقانہ کاروائیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا موقف ہے کہ جب سے ٹرمپ برسراقتدار آئے ہیں، ایران کیخلاف دھمکیاں، دھونس اور جنگ کے اعلانات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ انکا اصرار ہے کہ ایران کی سالمیت کیخلاف کسی بھی کاروائی کا ڈٹ کر جواب دیا جائیگا۔ پاسداران انقلاب کو امریکہ نے دہشت گرد قرار دینے کا یک طرفہ فیصلہ کیا، خدا کا کرنا، اسی کے ہاتھوں قیمتی امریکی ’عقاب یوایس گلوبل ہاک ڈرون جون میں مار گرایا گیا۔ ایران کا موقف ہے کہ ایسا کرنے سے قبل متعدد مرتبہ خبردار کیاگیا لیکن امریکیوں نے انکی تنبیہہ پر کان نہیں دھرا۔
ایرانی میزائل نے امریکی ڈوران مارگرایا ہے، یہ خبر سن کر امریکی صدر کا شاہانہ مزاج برہم ہوا اور انہوں نے ایران کے خلاف جوابی کاروائی کا ارادہ باندھا۔ پھر انہوں نے یہ ارادہ مؤخر کردیا کہ کارروائی کے نتیجے میں 150 ایرانی شہید ہوجائیں گے۔ افغانستان عراق فلسطین اور لیبیا میں لاکھوں فرزندان توحید امریکہ خاک و خون میں نہلا دئیے گئے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے لیکن ٹرمپ کو 150 ایرانیوں کی متوقع موت نے تیسری عالمی جنگ کا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کردیا جبکہ شاطر امریکیوں نے ڈرون کی تباہی کے بعد ایرانی حربی قوت کا ازسرنو تجزیہ کیا اور ٹرمپ کو بتایا کہ جنگ کے پہلے گھنٹے میں دونوں امریکی بحری بیڑے ڈوب جائیں گے ایران کی جوابی وار کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے اسرائیل اس تنازعے میں ‘‘غیر جانبدار’’ ہوکر خاموش ہوگیا ہے اس لئے ایران پر حملے کا ارادہ ترک کردیا جائے جس پر بے گناہ ایرانیوں کی جانیں بچانے کے بہانے حملہ نہ کرنے کا اعلان کردیا گیا اس واقعہ کے چند گھنٹے بعد پاسداران انقلاب کے کمانڈر میجرجنرل حسین سلامی کا کہناتھا کہ امریکی ڈرون گراکر سیدھا پیغام دیاگیا کہ ایران کی جغرافیائی سالمیت کی خلاف ورزی کرنے والے کو منہ توڑ جواب ملے گا۔ ایران کی سرحدات کی جو بھی خلاف ورزی کرے گا اسے ٹھوس، فیصلہ کن ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سرحد ہماری سرخ لکیر ہے، کوئی دشمن جو اس لکیر کو عبور کرے گا، واپس نہیں جائے گا۔
2015 میں جوہری معاہدہ سے امریکہ کے یک طرفہ الگ ہوجانے کے بعد سے ایران اور امریکہ میں تازہ کشیدگی کی لہر اٹھی۔ پوری دنیا نے ایران کے ساتھ مشترکہ جامع حکمت عملی (جے سی پی او اے) کی صورت انتظام کیاتھا۔ یورپ نے اس میں کردار ادا کیا ٹرمپ نجانے کس مٹی کے بنے ہیں کہ انہوں نے ان تمام اعلانات کو اڑتی مکھی کی بھنبھناہٹ جتنی توجہ کے بھی قابل نہیں سمجھا۔
حیران کن امر یہ ہے کہ جوہری خلاف ورزیوں کی پڑتال کرنیوالے عالمی ادارے (آئی اے ای اے) کے پاس بھی کوئی الزام نہیں کہ ایران نے کوئی خلاف ورزی کی ہے، جن سے معاہدہ ہوا ہے، وہ بھی کہتے ہیں کہ ایران نے اب تک طے شدہ نکات اور شرائط کی مکمل پاسداری کی ہے، کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی، پھر امریکہ کو اس پر اعتراض کیا ہے؟کسی بھی اصول، منطق، عالمی قانون یا قاعدے کی خلاف ورزی بھی نہیں ہوئی، یعنی کوئی شکایت بھی نہیں، پھر امریکہ کیوں دھمکیاں دے رہا ہے؟ یہ ہے وہ بنیادی سوال جس کا ہر مہذب انسان کو جواب درکار ہے؟ ماضی میں ویسے عراق کی صورت ہم پہلے ہی ’آئی اے ای اے‘ کو دیکھ چکے ہیں۔ امریکہ نے عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا الزام لگا کر پچیس لاکھ سے زائد بے گناہ کلمہ گو شہید کردیئے گئے۔ عالمی ایٹمی ایجنسی کے انسپکٹر تابعدار شاگردوں کی طرح سفید اجلے کوٹ پہنے ، ہاتھوں میں بریف کیس تھامے، عالمی میڈیا کے کیمروں اور فلیش گنز کی چمکتی روشنیوں میں ہر دوسرے دن آتے جاتے دکھائے جاتے۔ کیا عالمی ایٹمی ایجنسی میں کوئی ضمیر نامی چیز ہے؟ اس شرمناک سازش کے بعد اس ادارے کا تو وجود ہی مٹ جانا چاہئے۔
عالمی ایٹمی ایجنسی کو چاہئے کہ وہ عالمی ’واچ ڈاگ‘ بنے، ’امریکی ڈاگ‘ نہ بنے۔ عالمی ایٹمی ایجنسی نے ایران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی دوبارہ شروع کرنے اور اس کی مقدار میں اضافے کے بعد ہنگامی اجلاس بلایا ہے۔ حالانکہ اجلاس یہ بلانا چاہئے تھا کہ کیوں امریکہ نے بلاجواز معاہدے سے نکلنے کا اقدام کیا؟ کسی اصول کو تو پیمانہ بنانا پڑے گا۔ افسوس کہ اب تک بار بار ایک ہی اصول ثابت ہورہا ہے جسے اردو میں ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کے ضرب المثل سے جانا جاتا ہے۔ ایران کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اباما انتظامیہ کے دوران جان کیری نے ڈیڑھ سو ارب ڈالر کی جو ڈیل کی تھی، ایران اس کی خفیہ خلاف ورزی کررہا ہے۔ اس الزام کا اب تک کوئی ثبوت سامنے نہیں آسکا۔ امریکی صدر کے ٹویٹ اور الزام کے جواب میں ایران کا ردعمل ان الفاظ میں سامنے آیا کہ ’’ہمارے پاس چھپانے کو کچھ نہیں‘‘۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی حسین خامنائی کے 2000ء کے اوئل میں جاری کردہ فتوے کو ایران حوالہ بناتا ہے جس میں بڑے پیمانے پر ہلاکت خیز خاص طورپر جوہری ہتھیاروں کو بنانا اور ان کو ذخیرہ کرنے کی ممانعت ہے۔ 8 مئی 2018ء کو امریکی صدر نے ایران سے یک طرفہ معاہدے سے انحراف کرکے دنیا میں امن کی پھیلتی امید کو پھر سے مایوسی میں بدل دیا ہے۔ حالات کی بہتری کے بجائے جنگ، عدم استحکام اور مایوسی کے بادل پھر سے تن گئے ہیں لیکن خلیج فارس میں عالمی جنگ کا تصور کرکے اب یورپ سمیت ہیبت ناک امریکی جنگی مشین بھی لرز رہی ہے اور ٹرمپ جنگ سے بچنے کیلئے بہانے بازیاں کر رہے ہیں اور ساری دنیا امریکی ذلت کا تماشا دیکھ رہی ہے ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024