بنگلہ دیش کی حسینہ واجد سرکار بھارت کیلئے خصوصی نرم گوشہ رکھتی ہے، جس کا اظہار وہ اپنے عمل کے ذریعے وقتاً فوقتاً کرتی رہتی ہے۔ علاوہ ازیں بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ بڑی تیزی سے فروغ پا رہا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں کمی آنے کے بجائے روز افزوں شدت آ رہی ہے۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی حالیہ رپورٹ ’’ ہیومن رائٹس پریکٹیسس فار 2018 ‘‘ کے مطابق بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں شیخ حسینہ واجد حکومت کی باقاعدہ سرپرستی میں جاری ہیں۔
یہاں اس امر کا ذکر بھی توجہ کا حامل ہے کہ بنگلہ دیش کی عوامی لیگی حکومت نے اپنے بھارتی آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے بہت سے ایسے رہنماؤں کو سخت سزائیں سنائی تھیں جنہوں نے 1971 میں پاکستانی حکومت اور افواجِ پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔اسی حوالے سے عبدالقادر ملا جنہیں پہلے ہائی کورٹ نے عمر قید کی سزا دی تھی بعد میں بنگلہ دیشی حکومت کے ایما پر سپریم کورٹ نے اس سزا کو پھانسی میں تبدیل کر دیا اور اس بزرگ شخص کو پاکستان کی محبت کے جرم میں 42 سال بعد تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔پروفیسر غلام اعظم کو 91 سال کی عمر میں عمر قید کی سزا سنا دی گئی ۔ 11 جنوری 2012 کو انھیں گرفتار کر لیا، 23 اکتوبر 2014 کو وہ حالت اسیری میں ہی خالق حقیقی سے جا ملے ۔ ان کے علاوہ بھی بے شمار رہنمائوں اور کارکنوں کو حسینہ واجد کی حکومت عمر قید اور پھانسی کی سزائیں دے چکی ہے اور یہ صورتحال تاحال جاری ہے۔
یاد رہے کہ حسینہ واجد سرکار اور بھارت میں باہمی تعلقات خاصے اچھے ہیں مگر اسی وجہ سے بنگلہ دیش کے عوامی حلقوں میں بھارت اور حسینہ واجد حکومت کے خلاف شدید جذبات پائے جاتے ہیں۔ جس کا تازہ ترین مظہر عالمی کرکٹ کپ کے سیمی فائنل میں بھارت کی شکست پر بنگلہ دیش میں عوامی سطح پر خوشی کی لہر دوڑنا ہے۔ یاد رہے کہ بی بی سی نے بھی بالواسطہ طور پر اس امر کا اعتراف کیا ہے۔ ایک روز قبل بی بی سی نے اپنی ایک نیوز رپورٹ میں بتایا کہ بنگلہ دیش کے عوام کی بھاری اکثریت ہندوستان کو سخت ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ بی بی سی کی مذکورہ رپورٹ کے مندرجات درج ذیل ہیں۔
’’ بھارت کو عالمی کرکٹ کپ کے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے ہاتھوں جس طور شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ وہ نیوزی لینڈ میں شائقین کرکٹ کے لیے ایک خوشی کی خبر تھی لیکن بنگلہ دیش میں عوامی سطح پر بھارت کی اس ہار پر جشن کا سا سماں پیدا ہو گیا۔ فیس بک کے ایک صارف رونت بروا نے لکھا کہ غرور کا سر نیچا ہوتا ہے۔ اپنے مدِ مقابل کا احترام کھیل کا ایک اہم جز ہے لیکن انڈیا نے یہ کبھی نہیں سیکھا۔عائشہ رحمان نے لکھا کہ انڈیا کا غرور چکنا چور ہو گیا۔ ابو صالح نے پیغام بھیجا کہ انڈیا کے میچ ہارنے کے بعد بنگلہ دیش کے لوگوں کی انڈیا کے خلاف نفرت بہت واضح ہو جاتی ہے۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ سیاسی اور سفارتی سطح پر انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے لیکن عوام میں اس نفرت کی جڑیں بہت گہری ہیں اور اس کا تعلق خطے میں بھارت کے طرز عمل سے ہے۔
راجیو نندی چٹگانگ کی یونیورسٹی میں ذرائع ابلاغ کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کھیل میں لوگ ضرورت سے زیادہ جذباتی ہو جاتے ہیں۔ تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بہت عام سی بات ہے کہ سیاست، قومیت اور تصفیہ طلب معاملات بائیس گز کے اس کھیل پر بھی حاوی ہو جاتے ہیں۔زبیدہ نسرین جو ڈھاکہ میں علوم بشریات پڑھاتی ہیں ، کا کہنا ہے کہ انڈیا برصغیر میں ایک جارحانہ کردار ادا کرتا ہے۔ وہ تجارت، فنون لطیفہ، ثقافت اور ادب میں اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش میں رہتا ہے۔ اس کی وجہ سے بنگلہ دیش کے عوام میں انڈیا مخالف جذبات پیدا ہوتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ انڈیا تاریخی طور پر دو مذاہب میں تقسیم رہا ہے۔ مذہب اب بھی برصغیر میں بہت اہم ہیں۔ لہذا اگر مذہب کی بنیاد پر کوئی جماعت اقتدار میں آ کر مسلمانوں کو نشانہ بناتی ہے تو بنگلہ دیش جو مسلم اکثریت والا ملک ہے وہاں انڈیا مخالف جذبات پیدا ہونا قدرتی امر ہے۔نندی کا کہنا ہے بنگلہ دیشی لاشعوری طور پر انڈیا سے نفرت کرتے ہیں جس کی وجہ سرحد پر بھارت کے سرحدی گارڈوں کی طرف سے بنگلہ دیشیوں کی ہلاکتیں، علاقائی سیاست، بنگلہ دیش کی معیشت پر انڈیا کا تسلط اور ہندو انتہا پسندی میں شدت ہے‘‘
واضح رہے کہ جنوبی ایشیاء کے سبھی ممالک کے رہنے والوں کی بھاری اکثریت حقیقی طور پر بھارتی طرز عمل سے سخت نالاں ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دہلی کے حکمران جنوبی ایشیاء پر اپنی بالادستی کے دیرینہ خواب کو ہر طور حقیقت کے روپ میں ڈھالنا چاہتے ہیں اور اس ضمن میں وہ مختلف سطحوں پر کوششیں بھی کرتے رہتے ہیں جس کی بنا پر سری لنکا ایک طویل عرصے تک خانہ جنگی کا شکار رہا۔ علاوہ ازیں مالدیپ، نیپال، بنگلہ دیش، افغانستان ، پاکستان اور خود چین بھی بھارتی پر ریشہ دوانیوں سے محفوظ نہیں۔ اسی تناظر میں امید کی جانی چاہیے کہ عالمی برادری اپنی وقتی مصلحتوں کو خیر باد کہہ کر کے انسانی حقوق کے احترام کی راہ اپنائے گی۔ دوسری جانب عالمی عدالت انصاف بھی دانستہ یا دانستگی میں کلبھوشن یادو جیسے دہشتگرد عناصر کی حوصلہ افزائی کی مرتکب نہ ہو۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024