ناانصافی ظلم ہے
حضرت علیؓ جب امیر المومنین تھے تو آپؓ کی ایک زرہ گم ہو گئی اس گمشدہ زرہ کو آپؓ نے کافی تلاش کیا لیکن وہ نہ ملی۔ آخر آپ نے زرہ کے غائب ہونے کو اﷲ کی رضا تسلیم کر کے اسے تلاش کرنا چھوڑ دیا۔ کچھ عرصہ بعد آپؓ بازار سے گزر رہے تھے کہ امیر نے ایک یہودی کی دکان پر اپنی اس گمشدہ زرہ کو پڑا دیکھا۔ آپؓ نے حیران ہو کر اس یہودی کو کہا میاں! یہ تو میری زرہ ہے۔ تیرے پاس یہاں یہ کیسے آ گئی؟ اس یہودی نے جواب دیا امیرالمومنین آپ کے پاس اس زرہ کی ملکیت کا کیا ثبوت ہے؟جبکہ اس زرہ کو میں نے بازار تجارت سے خرید کیا اور میں اسے منافع کے ساتھ بازار میں فروخت کرونگا۔ حضرت علیؓ نے قاضی کی عدالت میں دعویٰ دائر کر دیا۔ قاضی نے اس یہودی کو بلایا۔ یہودی نے عدالت کو بتایا کہ زرہ میرا مال تجارت ہے اور میرے قبضے میں ہے۔ قاضی نے حضرت علیؓ کو کہا آپ اپنے دعویٰ کی تائید میں گواہ پیش کریں۔ آپؓ نے قاضی کو کہا کہ میرا بیٹا حسنؓ اور میرا غلام قنبر میری اس زرہ کو پہچانتے ہیں اور وہ یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے میری یہ زرہ غائب ہوئی ہے اور میں اسے تلاش بھی کرتا رہا ہوں۔ قاضی نے جواب دیا امیرالمومنین میں آپ کے صاحبزادے اور آپ کے غلام کی گواہی قبول نہیں کرونگا کیونکہ بیٹے پروالد کا اور غلام پر آقا کی شخصیت کا ایک رعب‘ احترام اور دبدبہ موجود ہوتا ہے اور اس کیفیت میں ممکن ہے حقیقت عدالت کے سامنے ظاہر نہ ہو سکے۔ امیرالمومنین نے قاضی کو کہا آپ کی دلیل بڑی قوی ہے اور انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ میں اپنے دعویٰ سے دستبردار ہو جاؤں اور یہ زرہ اس یہودی کو دے دی جائے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ میرا دعویٰ سچا ہے۔ امیرالمومنین حضرت علیؓ اپنے دعویٰ سے دستبردار ہو گئے۔ اس وقت امیرالمومنین اگر پسند کرتے تو وہ قاضی کو معزول کر دیتے اور یہودی تاجر کو چوری شدہ مال فروخت کرنے کے جرم میں گرفتار کر لیتے لیکن آپ نے قاضی کے فیصلے کو تسلیم کر کے دنیا کو یہ سبق دیا طاقت کا فیصلہ اور طاقتور کی خواہش کا احترام کوئی عدل نہیں ہوتا بلکہ یہ جبر ہوتا ہے۔ جب جبر کو عدل بنا کر عوام کو مجبور کر دیا جائے کہ وہ اس جبر نما عدل کے سامنے سر تسلیم خم کریں تو پھر خونریزی بڑھتی ہے اور ریاست غیر مستحکم ہو جاتی ہے۔
عوام کی خوشحالی اور اطمینان کا تعلق حکومت سے ہوتا ہے اور عوام کی بدحالی اور بیقراری کی وجہ بھی حکمرانوں کا انداز حکومت ہوتا ہے۔ دنیا کی بربادی اور آبادی حکمرانوں کے کردار کے ساتھ گہرا رشتہ رکھتی ہے۔ ایران میں ارد شیر‘ فریدون‘ بہرام گور اور نوشیرواں چار بادشاہ ایسے گزر ہیں جنہوں نے اپنے انصاف سے ایران کو اتنا مضبوط کر دیا کہ و ہ کسریٰ کی سلطنت بن گیا اور ایران دنیا کی فیصلہ کن طاقت بن گیا حالانکہ یہ بادشاہ آتش پرست تھے لیکن کفر اور انصاف کے ساتھ ایران دنیا کی طاقت بن کر قائم رہا۔ اس انصاف کی بدولت مجوسی ایران ایک طویل عرصہ تک دنیا پر حکمران رہا۔ اس کے بعد اسی ایران میں تین ایسے بادشاہ آئے جنہوں نے ظلم اور ناانصافی سے ایران کی رعایا کا جینا دوبھر کر دیا۔ وہ بادشاہ‘ ضحاک‘ افراسیاب اور پرویز تھے۔ ان کے بعد میں آنے والے ایرانی بادشاہوں نے بھی ناانصافی قائم رکھی اس ظلم کا نتیجہ یہ نکلا کہ پڑوسی میں رہنے والے صحرانشین عرب اٹھے اور انہوں نے ایران کی چار ہزار سال پرانی آتش پرست تہذیب کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ان صحرا نشین عربوں کو اسلام نے انصاف کی طاقت پر جمع کیا تھا۔
آپ اگر دنیا کی مٹنے والی تہذیبوں پر نگاہ ڈالیں تو یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوتی ہے کہ ہر تباہی میں ناانصافی اور ظلم کا کردار بڑا گہرا ہے جس ملک میں انصاف طاقتور کی خواہش کے مطابق ڈھلتا جائے اور پگھلتا جائے اس ملک کی سرحدیں پھر دشمن کی خواہش پر سکڑتی اور تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ یہ قانون فطرت ہے جسے مخلوق تبدیل نہیں کر سکتی۔ پاکستان میں انصا ف پر تحفظات بڑے واضح انداز میں موجود ہیں۔ مولوی تمیزالدین سپیکر پاکستان جب پاکستان کی بڑی عدالت سے نظریہ ضرورت کے قانون کا شکار ہو کر مقدمہ ہار گیا تو اسی دن پاکستان کی ریاست کو توڑنے کی بنیاد رکھی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت فی الحقیقت انصاف کا قتل ثابت ہوا۔ ائرمارشل اصغر خان کیس ایک طویل عرصہ تک انصاف کا منتظر رہا اور اس وقت برآمد ہوا جب انصاف مانگنے والا قبر میں جا سویا۔ اور اب راؤ انوار محکمہ پولیس کا جلاد جس نے ایک اندازے کے مطابق 444 انسان جو پاکستان کے غریب شہری تھی پولیس مقابلے میں پھڑکا دئے۔ اب اس قاتل کی ضمانت ہو گئی ہے۔ ایسے ’’معیاری‘‘ انصاف کے بل بوتے پر سیاستدان نیا پاکستان بنانے کی ضد کر رہے ہیں۔ جبکہ ہم اس نئے پاکستان کا تصور کرتے ہیں تو ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور اﷲ سے ہم یہی دعا کرتے ہیں کہ اے رب کعبہ ہمیں ہماری کوتاہیوں کی سزا نہ دے اور ہمیں نئے پاکستان کی تشکیل سے بچا جبکہ مہربانی فرماتے ہوئے تو اس پرانے پاکستان کو قائم رکھ۔
ناانصافی کی بنیاد پر استوار فرعون کی خدائی چاہے کتنی ہی طاقتور ہو لیکن اس ظلم کے نظام کو مٹانے کیلئے بحیرہ احمر کی وسعت اور اس میں موجود پانی کی لہریں ہی کافی ہو جاتی ہیں۔ ناانصاف نظام حکمرانی میں شیر چاہے کاغذی شیروں کو چھوڑ کر گیدڑوں کی فوج کاحصہ جا بنے اور چاہے وہ جیسے فیصلے بھی کرے لیکن رب کعبہ کی قسم تیرا رب تیری سوچ سے کہیں زیادہ طاقتور ہے اور وہ ناانصاف اور ظالم قوم کو پہلے چھوٹ دیتا ہے اور پھر اسے گھیرتا اس طرح ہے کہ ظالموں کا ہر حیلہ بیکار جاتا ہے اور ان کی ہر فتح شکست میں بدل جاتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭