پاکستانی راہنماؤں کے متعلق حقیقی لطیفے
محترمہ بینظیر بھٹو جب 1993 میںدوسری بار وزیراعظم بنی تو انہوں نے پی پی پی کے سردار فاروق لغاری کو صدر پاکستان منتخب کروایا۔ جب چاہتی لغاری صاحب کو اپنے پاس طلب کر لیتی تھیں۔ پہلے انہیں مسٹر لغاری اور بعد میں مسٹر پریذیڈنٹ کہہ کر پکارتی تھیں۔
عینی شاہدین کے مطابق جب آخری دور میں دونوں میں اختلافات عروج پر پہنچ گئے تو بینظیر خود چل کر ایوانِ صدر گئیں اور لغاری صاحب سے ملاقات میں انہیں ’’ بھائی لغاری ’’ کہہ کر مخاطب کیا۔
فاروق لغاری نے کہا ’’ میڈم۔ یہ ملاقات وزیراعظم اور صدر مملکت کے درمیاں ہے۔ بہن بھائی کے درمیان نہیں۔ اس لیے بھائی بھائی کی بجائے سیاسی حالات پر بات کیجئے۔ ’’
تاکید کے باوجود بھی جب بینظیر بھٹو ’’ بھائی لغاری ’’ کہنے سے باز نہ آئیں تو فاروق لغاری اٹھ کھڑے ہوئے۔ اپنی اہلیہ کو بلا کر کہنے لگے ’’ تمھاری نند آئی ہیں۔ ان سے گپ شپ لگاؤ۔ میں ضروری کام سے آفس جارہا ہوں ’’ اور گاڑی میں بیٹھ کر باہر چلے گئے۔
اسکے تھوڑے دن بعد ہی صدر لغاری نے بینظیر کی حکومت توڑ کر نگران حکومت بنا ڈالی۔
جنرل فیض علی چشتی بیان کرتے ہیں جنرل ضیائ الحق کے ہمراہ ہم فرانس کے دورے پر گئے، وفد کے ارکان کو ایک اعلی ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ اسی شام جنرل ضیائ الحق کے دروازے پر دستک ہوئی ، صدر مملکت نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ دروازے پر سفید وردی میں ملبوس ایک گورا کھڑا ہے جس کے کندھے اور سینے پر کافی تمغے اور پٹیاں لگی ہوئی تھیں۔
صدر مملکت نے اسے دیکھ کر فوراً تپاک سے ہاتھ ملایا ، بغلگیر ہوئے اور اسے اندر آنے کی دعوت دی۔ علیک سلیک اور خیر خیریت دریافت کرنے کے بعد صوفے پر بٹھایا اور فرانس کے قومی حالات اور فرانس پاکستان فوجی تعاون پر بات چیت شروع کی۔
چند منٹوںکے بعد گورے شخص نے کہا ’’ جناب مجھے آپکی باتیںسمجھ نہیںآرہیں۔ لیکن پھر بھی میرے لائق جو خدمت ہے وہ بتائیں میں حاضر ہوں ’’
جنرل ضیاء الحق حیران ہوگئے۔ اور اب اس شخص کا تعارف پوچھا۔ جس پر گورا بولا
‘‘جناب میں اس ہوٹل کا بیرا ہوں۔ اور آپکی سروس کے لیے آیا تھا۔ کوئی خدمت ہوتو بتائیے’’
جنرل چشتی بیان کرتے ہیں کہ یہ سن کر صدر ضیاالحق بڑے شرمندہ ہوئے۔ اس گورے کو رخصت کیا۔ اور بعد میں، میں نے صدر مملکت سے پوچھا۔ آپ نے اس بیرے کو کیا سمجھا تھا۔
جنرل صاحب کہنے لگے۔۔۔۔
’’ میں سمجھا تھا فرانسیسی بحریہ کے ایڈمرل ملاقات کے لیے آئے ہیں۔ ’’
اسکے بعد ہم دونوںجنرل ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتے رہے۔
جنرل ضیاء کا مارشل لا جب عروج پر تھا۔مارشل لا مخالف لوگوں کا جینا دوبھر ہو چکا تھا۔ بغیر سوچے سمجھے ایسے فیصلے کیے جارہے تھے جن کے ردعمل کے طور پر افسوس کی بجائے ہنسی آتی تھی۔ ہوا یوں کہ میر شہباز خان مزاری ملتان ائیر پورٹ پر اترے تو ملٹری کے آفیسر نے آگے بڑ ھ کر جناب! آپ تو پنجاب بدر ہو چکے ہیں۔ میر شہباز خاں مزاری نے کہا جناب! آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں ؟ میں تو پہلے ہی سندھ، سرحد اور بلوچستان بدر ہوچکا ہوں۔ اب کہاں جاؤں؟
1998 ء کے شروع میں وزیر اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف بھل صفائی کے سلسلہ میں قصورگئے تو انھوں نے ایک گورنمنٹ پرائمری سکول کا دورہ کیا۔ اسکی پانچویں جماعت کے سترہ بچوں میں سے کسی کو معلوم نہ تھا کہ پاکستان کا دارالحکومت کہاں واقع ہے۔ حتٰی کہ کوئی بچہ بانیِ پاکستان کا نام بھی نہ بتا سکا۔ وزیر اعلیٰ نے پوچھا ‘‘نوازشریف کون ہے۔‘‘ تو ایک بچہ نے معصومیت سے جواب دیا ‘‘بابرہ شریف کا بھائی؛؛
ملک معراج خالد مرحوم نگران وزیراعظم بنے تو انہوں نے قوم کو سادگی سکھانے کے لیے اپنے لیے ہر قسم کا سرکاری پروٹوکول منع کردیا۔ ایک دن وہ مال سے گذررہے تھے کہ دیکھا کہ پولیس نے ہرطرف ٹریفک جام کررکھی ہے۔ آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد انہوں نے گاڑی کے قریب گذرتے ایک پولیس کانسٹیبل سے پوچھا
’’ بھائی۔ پچھلے آدھے گھنٹے سے ٹریفک کیوں بند ہے ؟۔
کانسٹیبل نے انہیں پہچانے بغیر کہا ’’ جناب گورنر پنجاب خواجہ رحیم گذر رہے ہیں’’
ملک معراج خالد نے موبائل پر خواجہ رحیم سے رابطہ کیا اور کہا کہ ’’ آپ کے پروٹوکول میں میں بھی پھنسا ہوا ہوں۔ ’’
خواجہ رحیم نے قہقہہ لگایا اور کہا ’’ ملک صاحب۔ معذرت۔ لیکن اب تو میرے گذرنے کے بعد ہی ٹریفک کھلے گی اور میرے گذرنے میں ابھی 1 گھنٹہ باقی ہے’’
چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ خواجہ رحیم کا قافلہ کافی دیر بعد گذرا۔ اور سادگی پسند وزیراعظم صاحب کی گاڑی کو 2 گھنٹے کے بعد آگے بڑھنا نصیب ہوا۔
میر ظفراللہ خاں جمالی جب وزیر اعظم تھے۔ ایک دن شاہراہ ِ دستور سے گذرتے ہوے جب ان کی نظر چوک میں نصب گلوب پر پڑی تو سیکریٹری سے پوچھا ! یہ گلوب ترچھا کیوں لگا ہوا ہے؟ تھوڑی دیر کے بعد اس کو سیدھا کرکے لگا دیا گیا۔ جب میڈیا نے نوٹس لیا تو فوراَََ اْسے اصلی حالت میں لگا دیا گیا۔