خون آلود انتخابات
ابھی پشاور میں اے این پی کے انتخابی جلسے میں خود کش حملے اور اس کے نتیجے میں ہارون بلور سمیت 22 افراد کے کفن میلے بھی نہ ہوئے تھے کہ بنوں میں اکرم درانی کے قافلے کے قریب دھماکے اور شہادتوں کے بعد بلوچستان کے علاقے مستونگ میں بھی بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار کے قافلے پر ہونے والے بدترین خود کش حملے میں پی بی 35 کے امیدوار سراج رئیسانی سمیت128 افراد شہید اور150سے زائد افراد زخمی ہوگئے ۔
سراج رئیسانی سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی اور لشکری رئیسانی کے بھائی تھے۔عینی شاہدین کے مطابق دھماکے کی شدت بہت زیادہ تھی، جس سے پورا علاقہ گونج اٹھا۔اس سے قبل صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں سابق وفاقی وزیر اور خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی کے قافلے کے قریب ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں 4 افراد جاں بحق اور 13 زخمی ہوگئے تھے تاہم اس بم دھماکے میں خوش قسمتی سے اکرم خان درانی محفوظ رہے تھے۔
مستونگ حملے کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) نے قبول کی۔مستونگ میں ہونے والا خونریز حملہ 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) میں ہوئے حملے کے بعد خوف ناک ترین ہے۔10 جولائی کو پشاور کے علاقے یکہ توت میں عوامی نیشنل پارٹی کی انتخابی مہم کے دوران خودکش حملے سے صوبائی اسمبلی کے حلقہ 78 کے امیدوار اور بشیر بلور کے صاحبزادے ہارون بلور سمیت 20 افراد جاں بحق اور 48 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ اور حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
یہ حقیقت ہے کہ داعش پاکستانی سرحد کے قریب افغانستان کے دو صوبوں ننگرہار اور کنٹر میں موجودہے اور وہاں سے اپنے دہشت گرد بھیج کر پاکستان میں دہشت گردی کروا رہی ہے۔ حالیہ انتخابی جلسوں اور میٹنگز میں داعش اور ٹی ٹی پی خود کش حملے کروا کر نہ صرف انتخابات کی شفافیت کو داغدار کرنا چاہتی ہے بلکہ ساتھ ساتھ وہ حملوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بدامنی کی بھی ذمہ دار ہے۔ انتخابی بدامنی پیدا کر کے دہشت گرد پاکستان کو اس اہم موقع پر مفلوج کر دینا چاہتے ہیں۔ ان حملوں کا مقصد عوام کو دباؤ میں لانا ہے تاکہ وہ انتخابی عمل کے دوران گھروں میں قید ہو کر بیٹھ جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا کو یہ باور کرانا کہ پاکستان میں ہونے والے انتخابات شفاف اور منصفانہ نہیں۔ عوام کی کثیر تعداد نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ غرض پاکستان کی بدنامی اور دہشت گردی روکنے میں ناکامی کو کیش کرانا چاہتی ہیں۔ ویسے بھی بلوچستان اور کے پی کے صوبوں میں دو پاکستانی تنظیمیں بھی سرگرمِ عمل ہیں، جماعت الاحرار اور دوسری لشکرِ اسلامی، اور یہ تنظیمیں داعش کو قدم جمانے میں مدد دے رہی ہیں۔داعش پاکستانی سرحدی چوکیوں پر بھی حملوں میں ملوث رہی ہے اور پاکستان نے اس بارے میں افغانستان سے انٹیلی جنس کا تبادلہ بھی کیا ہے۔
انتخابی دہشت گردی کے حوالے سے یہ خبر بھی بہت اہمیت کی حامل ہے کہ حساس اداروں نے وفاقی حکومت اور حکومت سندھ کو خبردار کیا ہے کہ ایم کیو ایم لندن کے حکم پر جنوبی افریقہ سے مسلح دہشت گردوں کی ایک ٹیم پاکستان پہنچی ہے جو بلاول بھٹو زرداری، شہباز شریف، عمران خان، آفاق احمد، عامر خان، مصطفیٰ کمال، ڈاکٹرفاروق ستار، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، فیصل سبزواری ، خواجہ اظہار الحسن اور نبیل گبول پر حملے کرے گی۔ اس لئے ان کی سیکورٹی سخت کی جائے۔
اب انتخابات میں صرف دس روز باقی ہیں تو چند دن میں دہشت گردی کی تین بڑی وارداتوں کا ہونا پرامن اور شفاف انتخابات کے داعی نگران حکمرانوں اور الیکشن کمیشن کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کی کمر توڑنے کی دعویدار عسکری قیادتوں کو بھی بڑا چیلنج ہے ۔ مذکورہ حملوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سکیورٹی اداروں میں موجود کسی نہ کسی کمزوری اور خامی سے ہی دہشت گردوں کو بالخصوص انتخابی مہم کے دوران فائدہ اٹھانے کا آزادانہ موقع مل رہا ہے۔
حالیہ انتخابی مہم کے دوران دہشت گردی کی یہ سنگین وارداتیں جہاں ہمارے مکار دشمن بھارت کی طرف سے ہماری سلامتی کمزور کرنے کی گھناؤنی سازش ہے وہاں بیرون ملک وطن عزیز کی ساکھ خراب کرنے اور ملک کو اندرونی طور پر انتشارپیدا کرنے کا باعث بھی ہیں۔ اسی لئے ہمارے قانون نافذ کرنے والے اور حفاظتی اداروں کو انتخابی عمل کے شروع میں ہی ان خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے تھا یوں یہ جو بھیانک حادثے ہوئے ہیں شائد نہ ہوتے۔ دہشت گردوں‘ انکے سرپرستوں اور سہولت کاروں کی بروقت سرکوبی کی جانی چاہیے ۔ اس کے علاوہ نگران حکومتوں کی ترجیحات میں امن وامان یقینی بنانے اور پرامن شفاف انتخابات کرانے کے معاملات زیادہ توجہ طلب ہیں۔
نگران حکومت کی طرف سے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز کی پاکستان آمد روکنے اور اس سلسلے میں لاہور میں کرفیو کا سا سماں پیدا کرنے کی طرف توجہ کی وجہ سے دہشت گردوں کو ملک میں افراتفری پھیلانے کے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا موقع ملا ہے۔ اس حوالے سے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار رضا خان کا پشاور دہشت گردی پر یہ ردعمل چشم کشا ہے کہ یہ واردات سکیورٹی اداروں کی کمزوری کے باعث رونما ہوئی جو شفاف انتخابات کیخلاف ایک سازش ہے۔
حالیہ دہشت گردی کے تین واقعات کے بعد پرامن اور شفاف انتخابات کرانا نگران حکومت اور الیکشن کمشن کی ذمہ داری مزید بڑھ گئی ہے۔ امیدواروں کو مناسب سیکورٹی فراہم کرنا بھی ان اداروں اور حکومتوں کا کام ہے۔ جب نگران حکمرانوں کی ذمہ داری ہی ملک میں پرامن اور شفاف انتخابات کرانے کی ہے تو انہیں پشاور دھماکے اور اس پر چیف الیکشن کمشنر کے ردعمل کی بنیاد پر ہی سکیورٹی اداروں کو اپنی توجہ ملک میں صرف امن و امان کے قیام پر مرکوز رکھنے کی ٹھوس ہدایات جاری کرنی چاہئیں تھیں جس میں امیدواروں کی زندگیوں کا تحفظ اولین ترجیح بنائی جاتی ۔
دہشت گردی کی صورتحال میں سیاسی جماعتوں اور انکے امیدواروں کیلئے اپنی انتخابی مہم چلانا اورعوامی رابطہ رکھنا مشکل ہو جائیگا اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی فضا میں پولنگ کے روز ووٹروں کا گھروں سے باہر نکلنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ کیا ان حالات میں آزادانہ‘ منصفانہ‘ شفاف اور پرامن انتخابات کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے؟