نئے آبی ذخائر کیلئے نئی مہم
عرصے سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ مستقبل میں جنگیں توسیع پسندانہ، نہ ہی مال و دولت بلکہ محض پانی کے مسئلہ پر ہوا کریں گی جو عالمگیر صورت بھی اختیا ر کر سکتیں ہیں۔اس تنا ظر میں دیکھا جائے تو جہاں پانی قدرتی وسائل جن میں سونا چاندی، ہیرے جواہرات ، پیتل تانبہ لوھاکے علاوہ تیل جیسی دولت شامل ہے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر تا نظر آرہاہے وہاں اس کی کمی بھی ایک سنگین بلکہ نہایت سنگین مسئلہ کی صورت میں اس کی اہمیت میں مزید اضافہ کئے جارہی ہے مگر یہ کمی صرف اُن ممالک کے لئے پریشان کن ہے جو پانی زخیرہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور جو ممالک اس صلاحیت یعنی ڈیموں کی دولت سے مالا مال ہیں وہ اپنی ضروریات سے بے فکر تو ہیں ہی مگرساتھ ہی اسی پانی کو اپنے جارحانہ عزائم کی تکمیل کےلئے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی جنگی منصوبہ بندی بھی کر چکے ہیں جن میں ہمارا روایتی دشمن بھارت شامل ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں اس وقت ایک ہزار سے زائد ڈیم کام کررہے ہیں جبکہ پاکستان میں صرف تین سو کے قریب ڈیم ہیں جن میں سے صرف تین یا چار ڈیم ہی ایسے قابل ِ زکر ہیں جو پانی کا خاطر خواہ زخیرہ محفوظ رکھ سکتے ہیں بلکہ سستی بجلی کے حصول کازریعہ بھی ہیں ۔ اس حوالے سے پاکستان اور بھارت کے حکومتی ادوار کا تقابلی موازنہ کیا جائے تو اس میں بھی اُن ہی کی برتری واضع دکھائی دے گی جس طرح جنگی لحاظ سے بھارت کو پاکستان پر حاصل ہے ۔ہمارے ہاں کسی بھی سیاسی دور میں کسی بھی ڈیم کی تعمیر کی مثا ل نہیں ملتی ماسوائے سابق مرحوم صدر ایوب خان کے فوجی دور کے جس میں ملک میں تربیلہ ڈیم تعمیر ہوا ۔اُس وقت سے آج تک کوئی ڈیم تعمیر ہوا نہ ہی اس ضرورت کی طرف توجہ دی گئی۔ یہ سلسلہ نہ جانے مزید کب تک جاری رہتا اور اگرجاری رہتا تو شائد اس کے نتیجے میںپاکستان کے بھارتی آبی جارحیت کے شکار ہونے کے امکانات پیدا ہوجاتے مگر مشہور مقولے کے مطابق کہ پاکستان کو اللہ چلا رہاہے،اللہ نے اسلام کے قلعے پر رحم فرمایا اور حکومتوں کی بجائے عدالت عظمیٰ سے کام لینا چاہا اوریوں چیف جسٹس ثاقب نثار کا انتخاب کرتے ہوئے اِن کے زریعے نصف صدی کے تعطل کے بعد بھاشا اور مہمند کے ناموں سے ایک کی بجائے اکٹھے دو ڈیموں کی تعمیر کا اعلان کروا دیا۔چیف جسٹس صاحب نے بھی اللہ کے عمل کو سمجھتے ہوئے لمحے کی دیر کئے بغیر سیاسی اعلانوں کی مانند صرف اعلان کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ تعمیر کا عملی آغاز کرتے ہوئے ذاتی جیب سے دس لاکھ کی پہلی اینٹ ہی نہیں رکھی بلکہ پوری قوم سے بھی اس سلسلے میںعطیات دینے کی اپیل بھی کی مگر مقام افسو س ہے کہ اس اپیل کا وہ ُپرجوش رسپانس ابھی تک سامنے نہیں آرہا جس کی قوم سے توقع تھی اسلئے یہاں ہم پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن (پی بی اے) سے اپنے کالم کے زریعے قومی شعور کی بیداری میں اُسے بھی اپنا کردار اد ا کرنےکی اپیل کرتے ہیں جو اُسکا بھی ایک طرح سے قومی فریضہ بنتا ہے ۔
ہمارے اپنے ذاتی مشاہدے کے مطا بق قومی زہن سازی ( نیشنل مائنڈ میکنگ ) میں اشاعتی اداروں کی نسبت نشریاتی ادارے بہتر اور فوری کارکردگی دکھا تے ہیں جس کی واضع مثال 1965 کی پاک بھارت جنگ میں دیکھنے میں آتی ہے جب اُس وقت کے واحد نشریاتی ادارے ریڈیو پاکستان سے نشر کئے جانے والے ملی نغمے جن کی گونج اس وقت ہمارے زہن میں تازہ ہو چکی ہے ہوا کے دوش پر گولی کی رفتار سے چل کر اس وقت نہ صرف محاذوں پر لڑنے والے مادر وطن کے شیر دل سپوتو ں کی ہمت مرداں کو بڑھاتے رہے تھے بلکہ قوم کے ہر بوڑھے جوان حتیٰ کہ بچوں تک کا لہو گرماتے رہے جس سے نہ صرف مالی عطیات بلکہ خون کے عطیات کی بھی بھرمار ہو گئی تھی لہذا ضروری ہے کہ پی بی اے کی طرف سے اب بھاشا اور مہمند ڈیموں کے تعمیراتی عمل کو جلد سے جلد مکمل کرنے کی غرض سے بھی تمام نجی ٹی وی چینلز کو اس سلسلے میںاُسی طرزکی لہو گرمانے والی خصوصی اشتہاری مہم تیار کر کہ عطیے کے طور پر چلانے کےلئے خصوصی ہدایات جاری کیں جائیںکیونکہ یہ ڈیمز بھی ملکی بقاءکے ساتھ ساتھ بھارتی آبی جارحیت روکنے میں اُسی کردار و اہمیت کے حامل ہیں جتنی پاکستان کی عسکری و ایٹمی طاقت بھارت کی سرحدی جارحیت کے آگے سیسہ پلائی دیوار بنی ہوئی ہے ۔اس سلسلے میں شروع میں چالیس سے پچاس جبکہ بعد میں بیس سے پچیس سیکنڈ کے کلپ تیار کر کہ چلائے جاسکتے ہیںجن کی تیاری کےلئے ہم بھی عطیہ کے طور پر اپنی خدمات پیش کرنے کو تیار ہیں ۔اس سلسلے میں نگراں حکومت اورپیمرا کا کردار بھی اہم ہے جسے بھی اس حوالے سے اپنی قومی زمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے فوری اقدامت اُٹھانا چاہیں کہ یہ ڈیمز کسی فرد واحد کی نہیں قومی ضرورت اور اثاثہ ہیںاور اگر نگراں دور میں ہی بھاشا مہند ڈیمز کی فنڈریزنگ مہم کے زریعے مطلوبہ مالی ضروریات پوری ہوجاتی ہیں تو اگلی آنے والی حکومت کو بھی آسانیاں مُیسر آنے کی صورت میںکریڈیٹ چیف جسٹس کے ساتھ ساتھ پی بی اے اور نگرا ںحکومت کو ہی جائے گا۔یہاں یہ بات قابل زکر ہے کہ بھاشا مہمند ڈیمز کی فنڈریزنگ مہم کی غرض سے ہمارے لکھے گئے ایک کالم جو 8 جولائی کو نوائے وقت کے اسلام آباد ایڈیشن میں شائع ہوا کے فوراً بعد صرف پاک فوج کی طرف سے ہی تنخواہوں اور تنخواہوں کے علاوہ بھی عطیات کا دل کھول کر اعلان کیا گیا ہے جس پر ہم پاک فوج کو سلام پیش کرتے ہیں مگر دوسری طرف وفاقی و صوبائی حکومتیں ہنوز خاموش دکھائی دے رہی ہیںجن کی طرف سے ان کے ملازمین کے عطیات کا ابھی تک اعلان نہیں کیا گیا حالانکہ ہم نے اپنے کالم میں وفاقی و صوبائی حکومتوں سے اپیل کی تھی ۔اِسی طرح کسی مذہبی یا سیاسی جماعت کی طرف سے نہ ہی ان کے سربراہوں کی طرف سے بھی ڈیمز فنڈز میں تعاون کا بیان ابھی تک جاری نہیں کیا گیا جس سے ملکی معاملات میں ان کی دلچسپی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔جبکہ دوسری طرف عوامی سطح پر بھی ڈیمز فنڈ ریزنگ مہم ابھی تک وہ پذیرائی حاصل نہیں کر پائی جس کی توقع تھی اِسی لئے اس تما م تر صورتحال کودیکھ کر ہم نے پی بی اے سے اس سلسلے میں اُس کا قومی فریضہ ادا کرنے کی اپیل کی ہے کہ پی بی اے کے تعاون کے بغیر اس مہم میں مہینوں بلکہ سال بھی لگ سکتا ہے جبکہ تعاون کے نتیجے میں مہینوں سال کا کام ہفتوں میں مکمل ہو سکتا ہے۔اگر چوبیس گھنٹوں کی نشریات میں چینلز کو اربوں کی آمدنی ہو رہی ہے تو ملکی بقا ءکی خاطر اگر ایک منٹ کی فری سروس دے دی جائے تو ہم سمجھتے کہ یہ گھاٹے کاسودا نہیں بلکہ اجر کی صورت میں خدا کی خوشنودی کا زریعہ ثابت ہو سکتا ہے کہ پاکستان کو مملکت ِ خداداد کہا گیا ہے ۔