الیکشن کمیشن کے سربراہ کو اب تک مستعفی ہو جانا چاہئے جس نے ملک کی آدھی فوج کی پولنگ کے روز ڈیوٹی کی تربیت کے لئے کلاسیں شروع کر رکھی ہیں۔ الیکشن ڈے سے پہلے کیا ہو گا۔ اس سے چیف الیکشن کمیشن کو بھی کوئی سرو کار ہونا چاہیئے۔ آئین اس بارے میں ان کی کوئی ڈیوٹی لگاتا ہے یا نہیں ، میں آئین کے بارے میں ان پڑھ ہوں ، کچھ نہیں کہہ سکتا۔
میرا دل رو رہا ہے۔ہر پاکستانی کا دل رو رہا ہے۔ جس روز فوجی ترجمان نے یہ اعلان کیا کہ فوج کی قربانیوں کی وجہ سے ملک میں امن وا مان کی حالت مثالی ہو گئی ہے۔ اور یہ ایک سچی بات تھی مگر اگلے ہی روز خیبر پی کے میں ایک الیکشن میٹنگ میں دہشت گردی ہو گئی اور ایک امیدوار کئی حامیوں کے ساتھ شہید ہو گئے،یہ بلور خاندان کی دو الیکشنوں میںمتواتر دوسری قربانی تھی۔ پہلے الیکشن میں باپ اور ا س الیکشن میں بیٹا شہید۔ یہ سلسلہ چلا تو چل ہی نکلا اور پھر خیبر پی کے کو دوبارہ نشانہ بنایا گیا۔ اس میں سابق وزیر اعلی اکرم درانی کی جان تو بچ گئی مگر ان کے چار جانثار جان کی بازی ہار گئے۔ ابھی اس خبر سے دھواں اٹھ رہا تھا کہ بلوچستان کے ایک دور دراز علاقے مستونگ سے دھماکہ خیز خبر گونجنے لگی۔اس میں رئیسانی تقریر کر رہے تھے، اس دھماکے میں شہادتوں کی گنتی ون ڈے میچ میں رنز کی طرح بڑھنے لگی۔ مجھے اس لمحے کل بھوشن یادیو صاحب یاد آ گئے جن کی برسوں پہلے گرفتاری کے باوجود ان کا چاہ بہار میں قائم دہشت گردی کا نیٹ ورک انتہائی چوکسی سے کام کر رہا ہے۔ کل بھوشن کو پھانسی کی سزا ہو چکی ہے۔ سینکڑوں دیگر دہشت گردوں کو بھی سابق اور موجودہ آرمی چیف کی طرف سے پھانسی کی سزائیں سنائی جا چکی ہیں مگر جنہوںنے ان درندوں کے گلے میں پھانسی کا پھندہ ڈالنا ہے، وہ کہیں خواب خر گوش کے مزے اڑا رہے ہیں ، جب دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو پتہ ہے کہ پکڑے جانے کے باوجود ان کا بال تک بیکا نہیں کیا جاسکتا اور کوئی انہیں گزند نہیں پہنچا سکتا تو انہیں ڈر کاہے کا۔
خیبر پی کے اور بلوچستان ہمیشہ سے دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں، خیبر پی کے اور اس سے ملحقہ فاٹا کے علاقے میں برسوں سے فوجی آپریشن ہو رہے ہیں،۔ یہ آپریشن بلا شبہ کامیاب رہے ہیں مگر دہشت گردوں کی کمر نہیں توڑی جا سکی۔ ان کے منصوبوں کو شکست نہیں دی جا سکی، ان کے مذموم عزائم کو کچلا نہیں جا سکا۔ اس لئے نہیں کچلا جا سکا کہ ان کے جتھے ہمسایہ ملک افغانستان میں موجود ہیں۔ یہ بڑی ستم ظریفی ہے کہ دنیا ہمیں گرے لسٹ میں ڈالنے میں کامیاب ہو گئی۔مگر ہم اپنے دشمنوں کی حرکتوں کے بارے میں دنیا کو قائل نہیں کر سکے۔اس لئے نہیں کر سکے کہ ہمارا قومی بیانیہ تقسیم ہے، ہمارے کچھ لوگ منہ کھول کر کہتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کی جا رہی ہے،یہ عناصر کبھی نہیں کہتے کہ افغانستان میں بھارت کی را ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہی ہے جو آئے رو زپاکستان کو نشانہ بناتے رہے اور اب پھر کسی کونے کھدرے سے نکل آ ئے ہیں اور ہمیںخون کا غسل دے رہے ہیں۔
خیبر پی کے اور بلوچستان ہمیشہ سے دہشت گردوں کے اڈے بنے رہے ہیں۔بلوچستان میں تو علیحدگی کی تحریک کی پشت پناہی بھی بیرونی طاقتیں کر رہی ہیں۔یہ کام کھلے عام ہو رہا ہے۔ کتابوں کی کتابیں لکھی جا رہی ہیں، ہم بھی کتابیں لکھتے ہیں اور کسی نہ کسی سیاست دان کے کپڑے اتارتے ہیں۔ اس پس منظر میں ہم چلے ہیں اب الیکشن کا شوق پورا کرنے اور اس سے بھی ایک بڑا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچانے کہ سی پیک کے ذریعے تین براعظموں کو تجارتی روابط میں استوار کرنے۔ چلیے ہمارے عزائم تو ہمالیہ سے بلند ہیں ۔
مستونگ میں شہادتوں کی تعداد آرمی پبلک سکول کے حادثے کے برابر ہوتی جا رہی ہے مگر اے پی ایس میں پانچ دہشت گرد افغانستان سے لیس ہو کرآئے تھے ا ور ہمارے کمانڈوز نے ان کا پانچ گھنٹوں تک مقابلہ کیا تھا۔ مستونگ میں صرف ایک بمبار جلسے میں گھسا۔ اسے روکنے والے صرف ڈنڈوں سے مسلح تھے۔ اے پی ایس کے سانحے کے دوران ہماری سیاسی، حکومتی اور فوجی قیادت کا مجمع پشاور میں لگ گیا تھا۔مگر مستونگ میں کوئی ایک سیاسی یا قومی یا سرکاری راہنما لاشیں اٹھانے تک نہیں گیا۔بلوچ شہیدوں کی مائوں بہنوں کے آنسو پونچھنے کون جائے گا۔شیایدہی کوئی جا پائے۔کچھ لوگوں کے پاس ذاتی طیارے اور ہیلی کاپٹر بھی ہیں مگر وہ ہفتے کی صبح سویرے الیکشن پنڈال سجانے میںمصروف ہو گئے ہیں۔ البتہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے آج مستونگ جاکر اس سانحہ کے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا جس سے ان کے زخم کچھ نہ کچھ ضرور مندمل ہوئے ہوں گے۔ کہتے ہیں کسی محلے میں مرگ ہو جائے تو سات ہمسا یوں کے چولھے سات روز تک بجھے رہتے ہیں، پتہ نہیں یہ کس دیو مالائی ملک کی باتیں ہیں۔ کیاایساپاکستان میں ہوتا ہے ۔ جی ہاں،اے پی ایس سانحے کے بعد پوری قوم کے گھروں کے چولھے بجھ گئے تھے اور ملکی راہنمائوںنے آ نکھیں بند کر کے ایک قومی اعلامئے پر دستخط کر دیئے تھے ا ور ضرب عضب کا آپریشن تیز تر ہو گیا تھا۔ آج ضرورت ہے کہ پھر سے ایک ضرب عضب کا آغاز ہو اور بلا تاخیر آغاز ہو۔کیا میری یہ سطور آرمی چیف کی نظر سے گزریں گی۔
کچھ فیصلے ہم سے غلط یاا لٹ ہو جاتے ہیں ، اگر ہم نے پنجاب کے عسکری نگران وزیر اعلی کو اسلام آباد میں نگران وزیر اعظم بنا دیا ہوتا تو وہ کھل کر اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا سکتے تھے۔ لاہور میں تو نواز شریف کے جیالے پر نہیں مار سکے ۔ جغادری صحافی شہباز شریف کی ریلی تک دکھانے کی جرات نہیں کر سکے ۔ کنٹینر کا ہتھ کنڈہ تو دقیانوسی ہوگیا ، عسکری صاحب نے تاریخ پڑھ رکھی ہے اور انہیں پتہ ہے کہ بجلی کے کرنٹ کا مفیداستعمال کہا ں ہو سکتا ہے۔ ان کے وزیر داخلہ نے عوام کو خبردار کیا کہ لاہور ایئر پورٹ کے ارد گرد جو خاردار تار لگی ہے، اس میں بجلی کا کرنٹ دوڑ رہا ہے،۔ خبر دار کوئی اس کے پاس جانے کی غلطی نہ کرے۔لوگ جانتے ہیں کہ ایئر پورٹ سے ذرا دور بھارت نے ایک خاردار تار نصب کر رکھی ہے جس میں بجلی کا کرنٹ دوڑ رہا ہے۔ لوگوں کو یہ بھی یا دآ گیا کہ دیوار برلن پر بھی خار دارتار نصب تھی جس میں بجلی کا کرنٹ تھا مگر لوگ اس سے نہیں ڈرتے تھے اورا س پر سے کودنے کی کوشش میں کوئلہ بن جاتے، ان کی لاشیں اتارنے کی کسی میں ہمت نہ تھی، تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ ہٹلر نے موت کی سزا دینے کے لئے بجلی کے کرنٹ کاا ستعمال شروع کیا تھا۔ اگر تاریخ کو مدنظر رکھ کر عسکری صاحب ایک خاردار تار پورے ملک کی سرحدوں پر نصب کر دیں اور اس میں بجلی چھوڑ دیں تو کس دہشت گرد کی مجال ہے کہ سرحد پار سے آ سکے۔ایئر پورٹ کے گرد تاروں میں بجلی چھوڑنے کا خیال کسی نام کے عسکری حکمران ہی کے ذہن رسا میں آ سکتا تھا،پتہ نہیں ان صاحب نے تحقیق ، تجزیئے اور مطا لعے کے ساتھ ساتھ سویلین مارشل لا لگانے کا فن کہاں سے سیکھا ، شاید ان کے نام کی وجہ سے انہیں یہ ہنر غیب نے سکھا دیا۔
الیکشن ہونا چاہئے۔ ہر قیمت پر ہونا چاہئے،چاہے زمین پھٹ جائے،خواہ آسمان گر پڑے الیکشن ہونا چاہئے۔اب تو امریکہ نے بھی بتا دیا کہ دہشت گرد الیکشن کو سبو تاژ کرنا چاہتے ہیں ،پاکستانیوں کو نہیںمار رہے۔ا س لئے ہمیں امریکہ پر تو ضرور اعتبار کرنا چاہئے۔ ساڑھے تین لاکھ فوج کو پولنگ ڈے کی ڈیوٹی کی تربیت تو دی جا رہی ہے۔ مگرپولنگ کو یقینی بنانے کے لئے کچھ اور بھی کرنا پڑے تو ہمیں کر گزرنا چاہئے کیونکہ پولنگ نہ ہوئی تو جو نتائج کمپیوٹر میں محفوظ کر دیئے گئے ہیں،ان کے اعلان کی نوبت کیسے آئے گی اور جن کی تاج پوشی لازمی ہونی ہے ، وہ کیسے ہو سکے گی۔ اس لئے پاکستان لہو لہو ہے تو لہو لہو ہوتا رہے، ہمیں ایک اعلیٰ اور ارفع مقصد پیش نظر رکھنا ہے کہ کسی طرح اتنے لوگ تو دھماکوںمیں شہید ہونے سے بچ جائیں جو پولنگ کے روز پرچیاں ڈال سکیں۔ انہی پرچیوں کی آڑ میں ہم مطوبہ مثبت نتائج کے اعلان میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس لئے لوگ شہید ہوتے ہیں تو ان کے مقابلے میں الیکشن کا ہوجانا زیادہ اہم ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024