مکرمی! آپ کے جریدہ کی وساطت سے عرض ہے کہ قبرستان میانی صاحب لاہور میں اپنے عزیز و اقربا کے مزارات پر فاتحہ خوانی کیلئے حاضر ہوا تو یہ دیکھ کر دل و دماغ کو زبردست دھچکا لگا کہ قبرستان میں ناجائز تجاوزات کے نام پر جوتباہی مچائی گئی ہے وہ نہایت ہی روح فرسا ہے۔ احاطوں کومسمارکرنے کی یہ وجہ بیان کرنا کہ تدفین کیلئے جگہ نہیں ہے اس لئے یہ عمل کیا گیا ہے۔ یہ کوئی معقول وجہ نہیں۔ اس لئے کہ جن لوگوں کے جائز احاطے ہیں کیا اُن کے خاندان کے لوگ مریں گے نہیں؟ ان کو کہاں دفن کیا جائیگا؟ تو مسئلہ تو پھر وہیں کا وہیں رہا۔ اس کا حل یہ نہیں اس کا حل یہ ہے کہ مسلمانوں کی تدفین کے لئے الگ نیا قبرستان وقف کیا جائے۔ اچھی بھلی زرعی زمینوں کو برباد کر کے غیرضروری رہائشی سوسائٹی بسائی جا سکتی ہیںتو قبرستانوں کے لئے بھی جگہ مہیا کی جا سکتی ہے اور یہ حکومت کا فرض ہے۔ نیز بعض احاطوں کو گرانا اور بعض کو چھوڑ دینا بھی انصاف نہیں۔ حضرت طاہر بندگی کے احاطہ کو شہید کر دیا لیکن غازی علم دین شہید کے احاطہ کو ہاتھ تک نہیں لگایااسی طرح کئی اور احاطے بھی ہیں۔ جنہیں چھوڑ دیا گیا۔ قبرستان کے اندر دیواری کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔ اُسے گرا کر وہاں بھی کتنی قبریں بنائی جا سکتی ہیں۔ اُس دیوار میں بڑی دور دور تک راہ داری رکھی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے اپنے عزیزوں کی قبروں پر فاتحہ خوانی پڑھنے والوں کو بہت سے قبروں کو پاما ل کرکے جانا پڑتا ہے۔ احاطوں کی وجہ سے کچھ روک تھام تھی ۔اب توکھلم کھلا لوگ قبورکی توہین کے مرتکب ہو رہے ہیںپہلے تو احاطے رکاوٹ تھے اب رکاوٹیں ختم اور قبروں کی پامالی اور توہین اور بڑھے گی۔ قبرستان کے نام پر تجارت کرنا مسلمانوں کو زیب نہیں دیتا۔ اسی قبرستان کے اندر سے سڑکیں نکالی گئیں تو ہزاروں قبروں کی جگہ ختم کر دی گئی۔ اسی قبرستان میانی صاحب کو جنگلہ لگایا گیا پھر اسے اتروا کر نئی دیوار تعمیر کر دی گئی ۔ دینی مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے لئے خاص طور پرجیدعلمائ، مشائخ سے مشاورت ضرورکرنی چاہئے تاکہ ملک و قوم کا پیسہ اور وقت برباد نہ ہو اور صحیح ہدایات جاری کی جا سکیں۔ (رانا محمد الیاس۔ لاہور 03004496435)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024